130

مکی اور مدنی شاپس۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب لاہور میں چوری کی وارداتیں بڑھ گئیں اس میں جو ملوث پائے یا پکڑے گئے اتفاق سے باریش لوگ تھے،ذیلدار پارک اچھرہ لاہور میں مولانا مودودی  کی عصری مجالس میں ایک شہری نے یہ سوال اٹھایا کہ مولانا آج کل چوری کی بہت سی وارداتیں روزانہ کی بنیاد پر ہورہی ہیں ، ان میں زیادہ تر مولوی ہی پکڑے جارہے ہیں،آپ کیا کہتے ہیں،سید مودودی نے کہا کہ یہ مولوی نہیں ہیں بلکہ چوروں نے داڑھیاں رکھ لی ہیں،گویا ہر دور میں باریش ہونا جہاں شرافت کی علامت رہا ہے وہاں اسکی آڑ میں ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کی بھی کمی نہیں رہی ہے،یہی معاملہ حاجی ہونے کا بھی ہے، کہا جاتا ہے سب سے زیادہ کاتعلق ہماری ریاست سے ہے، رائے ہے کہ غالب اکثریت کاروبار سے منسلک ہے، پھر بھی زیادہ ٹیکس تو تنخواہ دار طبقہ ہی دیتا ہے ذخیرہ اندوزی،مصنوعی مہنگائی کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
دنیا بھر کے تجارتی مراکز میںدوکان ،ہوٹل، پٹرول پمپ،سٹیشنری ،فیکٹری،ٹائر شاپس،دواخانہ،بس سروس،ٹرانسپورٹ کمپنی،ٹورز  اینڈ ٹریولرز کمپنی،ملک شاپ،کریانہ سٹور،ہارڈوئر ہاوس،منیاری سنٹر،کلاتھ،بیکریز،فاسٹ فوڈز، کافی اورٹیلر شاپس وغیرہ ایسے نہیں ملیں گے جو مذہبی اورمتبرک ناموں سے منسوب ہوں، ہمارے ہاں زیادہ تر مکی اور مدنی کے نام سے بہت سے کاروبار منسوب ہیں آپ کو ہر شہر قصبہ،دیہہ میں ملیں گے، اسی طرح عربی کے الفاظ جیسے ماشاء اللہ،بسم اللہ بعض لوگ پیروںداتا، کرمانوالہ،سچل جیسے نام اور اعداد کا بھی استعمال کرتے ہیں ،313 اور786 دوکان یا کاروبار ی مقام پر جلی حروف میں لکھے جاتے ہیں۔
ایک ٹرینڈ بن چکا ہے کہ مذہب کے لبادہ اور پردہ کے پیچھے جو کام بھی کریں گے آپ کو اس کا پورا پورا فائدہ ملے گا،اگرچہ یہ دلیل سب کے لئے نہیں،تاہم اجتماعی طور پر طرز عمل ایک جیساہی ہے۔یہ رویہ زیادہ تر برصغیر ہی میں پایا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارا سماج مذہبی طور پر مسالک میں بُری طرح منقسم ہیں،اکثر مقامات پر مختلف مسالک کی الگ الگ مساجد ہیں  مسالک کو دل وجان سے عزیز رکھنے والے مگر اس قدر سیانے ہیں کہ انھوں نے نقصان کے اندیشہ کے پیش نظر کبھی بھی اپنے اپنے کاروبار، صنعت،دوکان داری کو اپنے مسالک کے نام سے منسوب کرنے کی دانستہ حماقت نہیں کی ۔ان کا خیال ہے کہ اگر اس رویہ کو اپنایا گیا تو مخالف فرقہ سے متعلق گاہک کبھی بھی دوکان،فیکٹری،پٹرول پمپ کا رخ نہیں کرے گا ،اسی طرح ایک دوسرے سے لین دین بھی نہیں ہوگا، یوں کاروباری سرگرمیاں محدود تر ہو جائیں گی۔حیرت یہ کہ اس عمل سے دین کے نقصان سے زیادہ انھیں اپنے کاوروبار کے منافع سے پیار ہے۔اس سے بڑھ کر مادہ پرستی اور کیا ہوسکتی ہے؟
 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کاروباری طبقہ جس نے اپنے کاروبار کے نام اولیاء کرام یا مذہبی مراکز یا شعائر اسلام سے کسی نہ کسی حوالہ سے منسوب کئے ہیں ان کا مقصد محض عقیدت اور محبت ہے یا وہ اصول پسندی اور اطاعت ہے جوکاروباری سرگرمیوں کے اعتبار سے احکامات
ہمیں قرآن اور سنت سے ملتے ہیں، صارف کو بازاری لوٹ کھسوٹ سے بچانا اوراس کو راحت پہنچانا یا دھوکہ دینا بھی ہے۔
 جائزہ لینے کے لئے ہمیں کسی نہ کسی کسوٹی کا انتخاب کرنا پڑے گا، سماج کی دیانتداری،رویہ،اشیاء کے خالص ہونے کی بناء پر کون سی ریاست قابل رشک ہے اس جان کاری کے لئے ہمیں عالمی اعداد وشمار کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل دیگر عالمی ادارہ جات کی درجہ بندی میں شفافیت اور عدم بدعنوانی میں غیر مسلم ممالک سر فہرست ہیں ،جہاں ملاوٹ، ذخیری اندوزی،جھوٹ،فریب جیسی خرافات نہیں ہیں،کاروباری معاملات زیادہ تر شفاف ہیں، کسی دوکان پر یہ لکھا ہوا نہیں ملتا کہ خریدی ہوئی چیز وآپس یا تبدیل نہیں ہو گی،کم تولنے کا بھی تصور نہیں،وہاں کا خوانچہ فروش آپ کی آنکھ میں دھول ڈال کر ہاتھ کی صفائی بھی نہیں دکھاتا، غالب اکثریت کی شاپس اور کاروباری پوائنٹس پر کسی قسم کی خاص مذہبی عبارت بھی رقم نہیں ہوتی،شاپس کے نام مقامات مقدسہ سے بھی منسوب نہیں ہوتے۔ 
 اس کے برعکس ہمارا مذہبی طبقہ مذہب کے نام پر ایسی خرافات متعارف کروا اور اس کی آڑ میں'' دام بنائے کام'' کے فارمولا پر عمل پیرا ہوچکا ہے،مذہبی پیشوائوں کی درویشی اب عیاری میں بدل چکی ہے،عوام کو سادگی کا بھاشن دینے والے '' متقی'' جب بڑے بڑے محلات سے نکلتے اور نئے برینڈ کی لگژری گاڑیوں سے برآمد ہوتے ہیں تو عام معتقدین کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں،یہی معاملہ نعت خوانی اور دیگرمذہبی مجالس پر داد اور عقیدت کے نام پر پیسہ بٹورنے والوں کا بھی ہے، سب کچھ سوشل میڈیا سے اب عیاں ہورہا ہے، باوجود اس کے علماء کرام کا سنجیدہ طبقہ ایسی تمام بدعات کے خلاف اپنی رائے دیتا ہی رہتا ہے۔
دین سے وابستگی کے نام پر مذہب فروختگی کا جو ماحول بنا دیا ہے،اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اب ناجائز منافع خوری، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی،فریب اور غیر معیاری اشیاء ،کم تولنے کو گناہ نہیںبلکہ چالاکی تصور کیا جاتا ہے۔
اس رو میں وہ کاروباری حضرات، دوکان دار بھی بہہ رہے ہیں جنہوں نے شعائر اسلام سے کاروباری نام منسوب کر رکھے ہیں ،عوام کی بڑی تعداد ان ناموں سے متاثر ہوکر ایسی شاپس سے خریداری کرتی اور سمجھتی ہے کہ دوکانداراورکاروباری افراد ان ناموں کی کچھ تو لاج رکھیں گے،مگر اکثریت کو مایوسی ہوتی ہے۔
 غیر الہامی مذاہب کی طرح ہمارے ہاں بھی اسلام کو پوجاپاٹ کا مذہب سمجھا گیا دین نہیں،دین اور دنیاوی معاملات کی حد فاضل از خود قائم کردی، حالانکہ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ فرمایا '' اے لوگوں جو ایمان لائے ہو اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو وہ تمھارا کھلا دشمن ہے''اب تو یہ عالم ہے کہ بڑی مذہبی اور تبلیغی جماعتوں کے اراکین کے معاملات کی عدم شفافیت پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں۔
اس قماش کے لوگوں نے یہ کیسے اخذ کر لیا ہے کہ وہ اس ہستی کو بھی دھوکہ دے سکتے ہیں جس کو اونگھ نہیں آتی انھیں ذرا بھی خوف خدا ہو توکبھی بھی شعائر اسلام سے منسوب کاروباری ناموں کی آڑ میں عوام کو دھوکہ نہ دیں ، ملاوٹ ،عدم شفافیت ،معیار اور مقدار کی شکایات اس بات کا ثبوت ہے کہ بڑی خرابی کاروباری طبقہ میں ہے،ہم سے بہتر تو اہل جاپان ہیں کہ جن کا کوئی باضابطہ مذہب نہیں مگر وہاںملاوٹ، دھوکہ

 دہی،ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، کم تولنے جعلی اورنقلی اشیاء کی فکر اور خوف سے خریدار آزاد ہے دوکان داروں کا یہ عمل صارفین کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ 

بشکریہ اردو کالمز