فیصل رمضان اعوان
اب توایسا لگتا ہے کہ ہمیں ہانک کر کسی ویران جنگل میں دھکیل دیا گیا ہے ویرانگی نے اس جنگل کو بنجر کردیا ہے ہرطرف خاردار جھاڑیاں ہیں دور دور تک پھول کلیوں کا نام ونشان تک نہیں ان کانٹے دار جھاڑیوں سے ہم دامن نہیں بچا سکتے الجھتے راستوں سے زخمی حالت میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں ویران سنسان جنگل میں بھوکے دردندے ہمیں نوچنے کے لئے ہردم تیار بیٹھے ہیں اور ہم بھی اس جنگل کے درندوں سے بچنے کے لئے ہر حربہ استعمال کررہے ہیں لیکن لاچارگی ایسی ہے کہ ماسوائے رونے دھونے کے ہم کچھ نہیں کرسکتے اور خونخوار درندے ہم سب کو چیرپھاڑرہے ہیں اور بے بسی دیکھیں ہم سب اس درندگی کا شکار ہورہے ہیں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیتے ہیں کہ بلی حملہ نہیں کرے گی بلی تو حملہ کرے گی کیونکہ بھوکی بلی اپنے شکارکو کیسے چھوڑسکتی ہے آج کل ہم سب انہی حالات سے گزررہے ہیں بجلی کے بل شیطان کی آنت بن گئے ہیں ہرماہ دو دفعہ یا اس سے بھی زیادہ بار قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں اس ماہ کے آخرتک تقریبا 51 فی صد بجلی کی قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے نجانے غریب کہاں جائے گا اس لاچار مخلوق کا ناحق معاشی قتل عام ڈھٹائی سے جاری وساری ہے دور پسماندہ ترین دیہاتی علاقوں میں جن گھروں کا بجلی بل دو ہزار سے پچیس سو تک آتا تھا اب بارہ ہزار سے پندرہ ہزار تک بھیج دیا گیا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔۔۔ نیشنل الیکٹرک پاورریگولیٹری اتھارٹی عنقریب اس ماہ کی پہلی تاریخ سے لاگو ہونے والے بجلی کے نظرثانی شدہ ٹیرف کے ذریعے صارفین سے سات سو ارب مزید نچوڑنے کی تجویز پرسماعت کرے گا اس ٹیرف پر نظرثانی کوآئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کے لئے ایک اور بیل آؤٹ پیکج کے لئے کوالیفائی کرنے کے لئے ایک ضروری قدم سمجھا جارہا ہے امکان ہے کہ یہ سماعت محض رسمی کاروائی ہوگی اور اس تجویز کو باضابطہ طور پر قبول کیا جائے گا ان تبدیلیوں کا اثر اگلے ماہ کے بلوں سے شروع ہوجائے گا جس سے بجلی بلوں میں مزید اضافہ ہوجائے گا غریب عوام پر جس طرح ظلم وستم جاری ہیں غریب عوام کا یہ معاشی قتل نجانے کیا گل کھلائے گا اس کا انتظار بہرحال ایک اذیت ناک تجربہ ہوگا مہنگائی کی چکی میں پسی غریب عوام پہلے سے ہی بدحالی کا شکار ہے یہ ظالمانہ بل غریب کا جینا حرام کردیں گے بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور اسی بھوک کی ننگی ناچ دیکھنے سے قبل ہمارے ایوانوں میں بیٹھے حکمران ہوش کے ناخن لیں وگرنہ کھیل ہاتھوں سے نکل جائے گا آج مہنگائی نے غریب آدمی کو روٹی کے دو لقموں سے محروم کررکھا ہے ایسے میں بجلی کے بھاری بل کہاں سے ادا ہونگے اس بار اپنا پیٹ بھرنے والے حکمران یہ ضرور سوچ لیں کہ اب کے بار احتجاج شروع ہوگیا تو پچھلے سال کی طرح کم نہیں ہوگا اس بار مڈل کلاس طبقہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے تنخواہ دار لوگ جب باہر نکلے تو یہ احتجاج تھم نہیں سکے گا کیونکہ عوام کا ہر طبقہ باالاآخر ایک اہم موڑ پر پہنچ چکا ہے