261

قافلے دل کے چلے۔

حرمین شریفین کی زیارت ہر مسلمان کے دل کی درینہ خواہش ہے،جن خوش نصیبوں کو یہ سعادت ملتی ہے،اپنے اپنے انداز میں اس مبارک سفر کی وہ داستان بیان کرتے ہیں،اگر کوئی قلم کاردر حبیبۖ پر حاضری دے تو اس کا انداز بیاں نہ صرف مختلف ہوگا، بلکہ پڑھنے والوں کے لئے معلومات افزاء بھی، کہا جاتا ہے کہااردو میں سفر نامہ حجاز کاآغاز یوسف کمبل پوش نے کیا تھا ،مگر یہ سفر نامہ ایک طرح کا ہدایت نامہ تھا، یہ تاریخ ''یوسفی'' کے نام سے لکھا گیا،بعد ازاں طبع زاد سفر نامہ حجاز حاجی منصب علی نے رقم کیا جو1871 میں شائع ہوا۔
 حجاز مقدس کا سفر ارض پاک کی معروف صحافتی شخصیت نے کیا مگر یہ سفر نامہ محض ہدایت نامہ نہیں ، بقول معروف صحافی محترم مجیب الرحمان شامی سفر نامے میں مصنف نے اپنے روحانی تجربات،حیرت انگیز مشاہدات کو اس طرح قلم بند کیا ہے،کہ قاری کے ذوق میں آج بھی رتی برابرفرق نہیں آیا، انھوں نے نظام حج میں بنیادی اصلاحات کی تجاویز دیں اور سعودی حکام نے عملی جامہ پہنایا،اس سفر نامہ کا صحافیانہ رنگ نمایاں دکھائی دیتا ہے، جہاں پاک عرب تعلقات کا تجزیہ ہے وہاں اسرائیل کے بارے میں پاکستان کے اصولی موقف کا تذکرہ بھی ہے۔ مزاح نگار محترم عطا الحق قاسمی رقم کرتے ہیں کہ منیٰ میں آتش زدگی کو انھوں اپنی آنکھوں سے دیکھا،نفسا نفسی کے عالم میں بعض انسان دوستی کی جھلکیاں یہ پتہ دیتی ہیں کہ انسان میں خیرکی موجودگی کا احساس مایوسی کو اُمید میں بدل دیتا ہے۔
 محترم الطاف حسن قریشی کا''قافلے دل کے چلے'' کے عنوان سے سفر نامہ ہے جس میں محض زیارات کا ہی تذکرہ نہیں بلکہ ان کے قلم سے پوری پاکستانیت جھلکتی اور امت کا درد ملتا ہے، اس سفر کے دوران انھوں نے شاہ فیصل شہید سے بھی شرف ملاقات حاصل کیا، پہلی بار1967میں حجاز مقدس کا رخت سفر انھوں نے سعودی فرمانروا شاہ فیصل کی دعوت پر باندھا،روضہ رسولۖ کے اندر جاکر زیارت کی سعادت حاصل کی۔ اپنے قیام کے دوران انھوں نے، سعودی عرب کے طول و عرض کے دورے کئے ،مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد ماہرین، اساتذہ کرام، صحافی برادری اور سماج کی ممتاز شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔
یہ وہ عہد تھا جب فلسطینی پاکستان سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے،ایک کیمپ میں انھوں نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا،ہوٹل میں مفتی اعظم فلسطین سے ملاقات کا احوال انکے سفر نامہ میں ہے،وہ پاکستان کو ایک طاقتور ریاست سمجھتے ،ساٹھ کی دہائی میںدفتری عملہ کا کلچر آج  سے مختلف نہ تھا،جس نے پچیس روپئے کے عوض انھیں صحت کا سرٹیفیکٹ ایک روز میںفراہم کیا ،ورنہ انکی فلائٹ نکل جانے کا خدشہ تھا،منیٰ میں اپنے ساتھ آنے والا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ خیمے کے باہر ایک شخص تکیہ اور لحاف لے کر آیا، میں سب سے آخر میں اٹھا،تکیہ اور لحاف لایا، وضو کرکے وآپس آیاتو دونوں غائب تھے ایک فرد کو ان پر قابض پایا،وہ فاتحانہ انداز میںمسکرایا،ایسی مسکراہٹ میں نے جوال لال نہرو کے چہرے پر اُس وقت دیکھی جب بھارت نے حیدر آباد پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا۔
 مصنف تحریرکرتے ہیں کہ60 کی دہائی میںجدہ ،مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی طرح ریاض میںاخوان المسلمون اورجماعت اسلامی کے
اثرات ہر جگہ محسوس کئے،سید قطب،سید مودودی کا نام عوام وخواص میں بڑے احترام سے لیا جاتا ہے، اُس عہد کاشاہی خاندان بھی ان سے فکری طور متاثر تھا۔شاہ فیصل مرحوم پاکستانیوں پہ سب سے زیادہ اعتماد کرتے، انھوں نے رابطہ عالم اسلامی تنظیم کی تشکیل دی جس کابنیادی خاکہ سید مودودی نے تیار کیا تھا۔
الطاف حسن قریشی،سعودی عرب چیمبر آف کا مرس ممبرکے جذبات بیان کرتے ہیں،ہماری بڑی تمنا ہے کہ پاکستانی مصنوعات یہاں فروخت ہوں،آپ کے تاجر منظم کام کیوں نہیں کرتے،حج کے موقع پر غیرکاروباری حضرات آرڈر لیتے ہیں،وہ گویا ہوئے ایک بارہمارے دوست نے جوتوں کاآرڈر دیا،جوتے وصول ہوئے، مگر ایک دو ہفتوں میںسب کے تلے نکل گئے،ہمیں کم از کم پاکستان سے ایسی کاروباری کی بد دیانتی کی توقع نہ تھی۔
مصنف جب عمان کے ائر پورٹ پر اترے تو ٹیکسی ڈرائیور نے انکے ہاتھ چومے اور جذبات کی زبان میں بولے کہ '' آپ کتنے خوش نصیب ہو!پاکستان میں رہتے ہو،ہمارا قابل فخر دوست اور ہمارا قابل اعتماد ساتھی ہے،وہ ان کے گلے لگ کر دیر تک روتا رہا،وہ ان سے ایسے لپٹ رہا تھا جسے ایک دکھی شخص کو بڑے بھائی کا آسرا مل گیا ہو۔
منیٰ میں جم غفیر دیکھ کر خیال آیا اگر یہ اجتماع امریکہ اور بر طانیہ میں ہوتا تو اس کا انداز کیسے ہوتا، ٹریفک حادثات میں کتنی ہی زندگیوں کے چراغ گل ہوجاتے،بدمستی وسیہ کاری میںعفت وعصمت کا خیال کسے رہتا؟مگر یہاں ہر چیز اس طرح محفوظ کہ فلک بھی نظر اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا،یہاں تمام افراد بے پایاں مسرتوں کے وقت بندگی کے اعلیٰ مقام تک پہنچنے کی کاوش میں مصروف،جہاں اللہ کا رنگ انسانی روح میں رچتا نظر آتا ہے۔
الطاف حسن قریشی نے 1997 میںحج کی سعادت کی تو انھیں ریاض میں یوم پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب میں شرکت کا موقع بھی ملا  لکھتے ہیں کہ شرکاء تقریب اس بات پر متفق تھے کہ سماجی انصاف کے قیام سے معاشرہ غیر معمولی ترقی کر سکتا ہے،اونچ نیچ کا نظام جلد ختم کرنے کی ضرورت ہے،نیز قومی یک جہتی سے بڑے مسائل حل کئے جاسکتے ہیں،سفر نامہ میںدوسری سربراہی کا نفرنس کا بھی ذکر بھی ہے جس کی وساطت سے ایرانی صدر رفسنجانی اور سعودی ولی عہد کی ملاقات ہے،پاکستان کے سوا کہیں بھی ون ٹوون بات چیت ممکن نہ تھی۔
 اگرچہ مصنف نے کئی بار حج کی سعادت حاصل کی مگر ان دو مواقعوں پر ان کے پیش نظر ایک طرح کی سفارت کاری اور عوامی رابطہ بھی تھا موصوف جید صحافی، مدیر اعلی اردوڈائجسٹ،محب وطن،امت مسلمہ کے خیر خواہ بھی ہیں، ان کا سفر نامہ محض ہدایت نامہ نہیں ،مگر معلومات کا خزینہ ہے، سعودیہ کے علاوہ اردن اور کویت کا دورہ بھی اس سفر کاحصہ تھا۔
لکھتے ہیں جنرل ضیاء الحق نے خدام الحجاج ادارہ قائم کیا جو زیادہ تر فوجیوں پر مشتمل تھا، اب بھی اس میں سفارشیو ں کی بہتات ہے،انھوں نے تجویز دی کہ ہمیں بھی ملائیشیا حج فاونڈیشن کا ماڈل اپنانا چاہئے،جس میں سرکار کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، الخبر میں اس پاکستانی سکول کا ذکر ہے، جسے عباس نامی بے لوث فرد چلا رہا تھا،اب وہ ڈگری کالج ہے جس میں مصنف کو 20 سال بعد جانے کا موقع ملا تھا،بچوں میں پاکستانیت کا جذبہ دیکھ کر خوشی ہوئی،مصنف کہتے ہیں جب انھوں نے غسل کے بعد احرام پہنا تو محسوس ہوا کہ سادہ لباس نے عیوب

بشریت کے داغ چھپا لئے ہیں، رب کریم کی رحمت غالب آگئی ، مذکورہ سفر نامہ میں تمام پہلوئوں کا واقعاتی انداز میں جائزہ لیا گیا سفر نامہ کی اشاعت کا سہرا قلم فاونڈیشن لاہور کے روح رواں علامہ عبدا لستار عاصم کے سر ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

بشکریہ اردو کالمز