آج کے ’’آئین نو‘‘ کے منتخب موضوع بعنوان ’’9مئی: جزوی معافی، مکمل حل‘‘ پر بڑے اور اصلی ملکی پالیسی و فیصلہ سازوں، رائے عامہ تشکیل دینے والے مین اسٹریم اور سوشل میڈیا، سیاسی بیانیوں اور عمومی ابلاغ کے سیاسی رہنمائوں اور پوٹینشل کارکنوں کی خصوصی توجہ مطلوب ہے۔ اس لئے کہ اس میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس میں پیش کئے گئے حل ’’9مئی‘‘ کے فریق اول (تمام ملزمان) کی معافی مانگنے کو بطور حل پیش کرنے سے بظاہر اسٹیبلشمنٹ کا مجوزہ حل (معافی) پی ٹی آئی کے درمیان شدت سے مطلوب مفاہمت کی راہ میں بظاہر بڑی رکاوٹ، بلکہ ناگزیر حل کی تلاش میں ڈیڈ لاک بن گیا ہے۔ اس کی تصدیق جنرل صاحب کی پریس کانفرنس، اس پر پی ٹی آئی کے فوری اور یکسر مسترد کردینے والے پیپلز ایٹ لارج میں تاثر کے علاوہ ٹی وی ٹاک شوز اور رائے سازی کے بڑے ذریعے سیاسی تجزیہ نگاروں کے مجموعی باٹم لائن (اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان ڈیڈ لاک) سے ہوتی ہے۔ یقیناً ہر دو جانب یہ ایک بڑا کمیونیکیشن ڈیزاسٹر ہے۔ پی ٹی آئی تجزیہ نگار اور تشکیل ہوئی رائے عامہ کے دوسرے ذرائع نہیں سمجھ پائے کہ پریس کانفرنس اپنے تئیں حل لئے ہوئے تھی۔ اس مرحلے پر اپنی سیاسی ساکھ پر اسیر عمران خان اور پوری جماعت بہت محتاط ہے، جو قابل فہم ہے، لیکن کمیونیکیشن ڈیزاسٹر کا یہ پہلو بہت واضح ہے جو تجزیوں میں نمایاں نہ ہو سکا کہ آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس سے سخت اور لازمی سزا دینے کا تاثر حل کی پیش کش پر نمایاں ہوا، جبکہ پی ٹی آئی کے ترجمان رئوف حسن کا موقف کچھ زیادہ ہی فوری اور ’’حل‘‘ کو ناقابل غور و خوض قرار دینے والا تھا، حالانکہ اس ’’حل‘‘ (معافی) پر غور و خوض کرکے مختلف سوالات اور جوابات کی تقویت سے اسے پی ٹی آئی کیلئے قابل قبول بنانے کی گنجائش موجودتھی اور اب بھی ہے۔ یہ دوطرفہ کمیونیکیشن ڈیزاسٹر، ہر دو فریق پی ٹی آئی اور آئی ایس پی آر میں کمیونیکیشن سائنس سے واقفیت یا اطلاق کی کم تر صلاحیت کی وجہ سے ہوا، حالانکہ یہ بہت بڑا بریک تھرو تھا کہ آئی ایس پی آر 9مئی کے حوالے سے ایک سال سے اختیار کئے اپنے پختہ موقف میں لچک پیدا کر چکا تھا۔ یوں اس کی پریس کانفرنس نیک نیتی اور بحران ختم کرنے کی ابتدائی عملی کوشش کا مظہر تھی، لیکن اس میں مس کمیونیکیشن ڈسپلن کے نالج کے حساس ترین آپریشن میسج کنسٹرکشن کے اعتبار سے کمیاں موجود تھیں، یہی کچھ پی ٹی آئی کے فوری بظاہر مزید پاپولر حیثیت کو بڑھانے والا ردعمل پی ٹی آئی کی طرف سے آیا، کیونکہ اس کے نظام میں سیاسی ابلاغ کے پارٹی تجزیے اور پھر میسج کنسٹرکشن کا کوئی نظام ہی موجود نہیں۔ تاہم اس کمیونیکیشن ڈیزاسٹر پر ہر دو فریق کو بڑا الائونس دیکر اس نادانستہ کوتاہی سے بیل آئوٹ کرنا اور خود ان کا تسلیم کرنا لازم ہے۔ کمیونیکیشن سائنس ہی کیا، تلخ اور کھل کر تسلیم کرنے والی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے 76 سالہ نظام حکومت و سیاست کے کسی بھی شعبے میں نالج بیسڈ پالیسی، فیصلہ سازی اور عملدرآمد کی گنجائش کم ترین سطح پر ہے، جس کے نتیجے میں جہاں متعلقہ و مطلوب کمیونیکیشن سپورٹ سے بڑی آسانی سے حل نکلنے تھے وہاں کمیونیکیشن ڈیزاسٹر نے بڑے بڑے سیاسی و معاشی اور سماجی بحران پیدا کئے۔
اب آتے ہیں 9مئی کے حوالے سے میجر جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس میں پیش کیا گیا ’’حل‘‘ معافی۔ پی ٹی آئی کیلئے کس طرح بڑا ریلیف اور پڑی افتاد سے نکلنے کی راہ نکالنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ یقیناً انہوں نے نیک نیتی سے اسٹیبلشمنٹ کے تئیں جو حل پیش کیا وہ اپنی ہو بہو شکل میں تو پی ٹی آئی کیلئے قابل قبول نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ اب ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہی نہیں 8 فروری کو منوائی گئی ملک گیر مینڈیٹڈ پارلیمانی قوت ہے۔ اس کا اپنی اس بڑی سیاسی کمائی کو سنبھالے رکھنے پر بلند درجے پر محتاط رہنا سمجھ میں آتا ہے لیکن اسے ملک کی خاطر اور گھمبیر سیاسی و معاشی بحران کے پیش نظر اتنا ہی ذمے دار، سنجیدہ ہونا چاہیے، اس پس منظر میں آج کا ’’آئین نو‘‘ ملکی گھمبیر سیاسی بحران، معیشت میں قدرے بہتری کے اشاریوں کے باوجود، گندم اسکینڈل بے نقاب ہونے کے بعد موجود حکومت کی پوزیشن مزید نحیف ہو جانے کا فوری تقاضا ہے کہ 9مئی کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کے سخت گیر موقف میں لچک اور پیش کردہ حل ’’پی ٹی آئی کی معافی‘‘ کو قابل قبول بنایا جائے۔ اس کی بہت قابل تشکیل اور عملی شکل یہ بنتی ہے کہ اسیر اور مقدمات میں ملزم قرار دیئے گئے پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور کارکنوں کی فہرستوں پر نظر ثانی کرکے ان میں سے وہ ملزمان بشمول پارٹی چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین جو فوجی تنصیبات اور مراکز پر احتجاجی دھاوے میں براہ راست شریک نہیں تھے، چونکہ کسی عدالتی کارروائی میں ان کی سماعت ہوئی نہ الزام ثابت، انہیں تو بری کردیا جائے۔ جو شریک تھے انہیں غدار، باغی اور بیرونی مہرے کے الزامات اور القابات سے نکال دیا جائے، تاہم سول انتظامیہ کی لاپروائی وہ کارکن اور مظاہرین جو عمران خان کی بقول چیف جسٹس سپریم کورٹ غیر قانونی طریق گرفتاری سے مشتعل ہو کر یقیناً قابل مذمت و گرفت جرم کے مرتکب ہوئے، ان کی ایک سالہ اسیری کوسزا تصور کرکے اسٹیبلشمنٹ انہیں سزا یافتہ ڈکلیئر کرکے یا اس میں جرمانے اور چند ہفتوں کی مزید علامتی سزا دے کر فراخدلی اور اعلیٰ قومی وقار کا مظاہرہ کرتے ،رہائی پر آمادگی کی طرف آ جائے تو یقین جانیے ہر دو جانب اورسب سے زیادہ ملک و قوم یکدم بحران سے نکل آئیں گے۔
دوسرا مرحلہ ایک مطلوب مستحکم حکومت کے ایک ٹائم فریم ،جو مختصر ہو، میں اصلی منتخب حکومت کے قیام اور مقابل نظر آتی طاقتور اپوزیشن کو امکانی انتقام سے محفوظ اور آزاد رکھنے کیلئے تجاویز کا ایک مسودہ حکومت اور پی ٹی آئی کے بہت ذمے دار حقیقی معنوں میں انتخاب جیتے ہوئے اراکین اسمبلی کی ایک کمیٹی تیار کرے اس پر ڈائیلاگ ہو۔ اسٹیبلشمنٹ کو اس میں لازمی فریق بنایا جائے، 8 فروری کی لاقانونیت کو ریورس کرکے اس حقیقت کے ساتھ کہ افواج پاکستان مملکت کے ریاستی نظام کا لازمی جزو ہے کہ پاکستان اپنی سکیورٹی کی ترجیح اول کے اعتبارسے یقیناً سکیورٹی اسٹیٹ ہی ہے لیکن آئین کو جھٹکتے ہوئے اسے گیریژن اسٹیٹ بنانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ذہن نشین رہے کہ 9مئی کے حوالے سے ’’کڑی سزا‘‘ میں نرمی لا کر سزا کا موقف تو ماننا ہی پڑے گا کہ کچھ رہنمائوں اور ہوش کھو دینے والے کارکنوں نے کسی حد تک قابل مذمت جرم کا ارتکاب تو کیا۔ وہ خود بھی حوصلہ مندی سے اس کا اجتماعی اعتراف کرکے معافی مانگیں اور اسے قبول کریں اور فقط ایف آئی آر میں شامل ملزمان کو خارج کردیا جائے تو اس جزوی معافی سے بحران اور بدترین ڈیڈ لاک کا مکمل حل نکل آئے گا۔ وما علینا الالبلاغ۔