پی ٹی آئی کے ترجمان رئوف حسن نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کو زہریلی (VENOMOUS) قرار دیا ہے۔ موصوف جس ذہنی کیفیت میں بعداز سراشام ہوا کرتے ہیں، اس میں سریلی شے زہریلی اور زہریلی شے سریلی ہی لگتی ہے چنانچہ اس فقرے پر اعتراض کی ضرورت نہیں۔ البتہ انہوں نے یہ جو فرمایا کہ 9 مئی کے واقعات میں کم از کم پی ٹی آئی شامل نہیں تھی ، اس پر سوال اٹھتا ہے۔ یہ کہ اس میں کم از کم سے کیا مراد ہے۔ کیا موصوف یہ فرما رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کم از کم شامل نہیں تھی بلکہ زیادہ سے زیادہ شامل تھی؟ یا پھر ان کا مطلب ہے کہ 9 مئی کے واقعات پی ٹی آئی نے نہیں کئے، وہ تو سنّی کونسل والے تھے؟۔ یہ دو سوالات ہیں جن کے جوابات کیفیت مآب رئوف حسن سے نیک مطلوب ہیں۔ مزید برآں، وہ چاہیں تو بونس کے طور پر اس سوال کا جواب بھی عنایت فرما دیں کہ قائد انقلاب نے جسٹس گڈ ٹوسی یو کی آغوش، معاف کیجئے گا، ان کے سایہ ضمانت میں یہ کیوں فرمایا تھا کہ 9 مئی کو جو ہوا، میرے کارکنوں کا میری گرفتاری کا ردّعمل تھا اور اگر دوبارہ پکڑا گیا تو پھر میرے کارکن یہی ردّعمل دیں گے۔ اس سوال کا جواب لازم نہیں کہ رئوف صاحب ہی دیں، عزّت مآب گڈ ٹو سی یو صاحب آج کل کہاں ہوتے ہیں، عرصہ گزر گیا نظر نہیں آتے، کہیں ڈیم والے چاچا جی کے جھونپڑے میں تو نہیں جا بسے جو انہوں نے ڈیم والی جھیل کے کنارے کھڑا کیا تھا؟
_____
موصوف دو آتشہ کیفیت میں تھے اور جب ان کی کیفیت سہ آتشہ ہوئی تو فرمایا، ایک گھنٹے کے نوٹس پر اسلام آباد میں دو لاکھ کا مجمع اکٹھا کر سکتا ہوں۔
یہ تو کھلا کھلا قائد انقلاب کی ’’صلاحیت‘‘ پر دو لاکھی، حملہ ہے۔ موصوف یہ جتلا رہے تھے کہ دو سال میں قائد انقلاب ہر ہفتہ لوگوں کو خوف کے بت، ڈر کی زنجیریں توڑ کر باہر نکلنے کی کال دے رہے ہیں اور کبھی بھی تین چار یا پانچ چھ سو سے زیادہ لوگ اسلام آباد میں نکل نہ پائے۔ محترم کیفیت مآب صاحب، یہ کال آپ نے پہلے کیوں نہ دی، قائد انقلاب کی عزت رہ جاتی۔ چلئے، کوئی بات نہیں، کال اب دے ڈالئے۔
_____
کیفیت مزید عروج کو پہنچی یعنی چہار آتشہ کی منزل پر چڑھی تو یہ انکشاف فرمایا کہ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان قوّت سماعت، بصارت و گویائی سے محروم ہیں۔
واقعی یہ نوحہ پڑھنے کا مقام ہے۔ افسوس اب گڈ ٹو سی یو جیسے دیدہ بینا رکھنے والے چیف جسٹس کہاں سے لائیں۔ ڈیم والے چاچا جی کی طرح کے ہیرے کس منڈی میں تلاش کریں۔ افسوس ع:
آں قدح بہ شکست ، آں ساقی نماندا
_____
چہار آتشہ کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا اور لوٹ کر دو آتشہ کی کیفیت میں آئے، فرمایا ہم پرامن جماعت ہیں، کبھی کسی مظاہرے میں گملا تک نہیں توڑا۔
ان کا یہ دعویٰ شواہد کی روشنی میں بالکل درست ہے۔ ایس پی جونیجو کا سر پھوڑا لیکن گملہ بالکل نہیں توڑا۔ پی ٹی وی کی عمارت میں گھس کر کھڑکیاں دروازے شیشے توڑے لیکن گملوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ جوڈیشل کمپلیکس پر پْرامن حملے میں بھی دروازے کھڑکیاں کیمرے میز کرسیاں توڑیں لیکن گملوں کا احترام کیا۔ ہاں اس روز جو گملے ٹوٹے تو وہ اس لئے ٹوٹے کہ وہ سی سی ٹی وی کیمروں اور کھڑکیوں پر مارے گئے اور اس کے نتیجے میں وہ ٹوٹ گئے۔ یعنی انہیں کچھ اور چیزوں کو توڑنے کیلئے مارا گیا: نیت گملے توڑنے کی نہیں تھی اور 9 مئی کو 223 فوجی تنصیبات گواہ ہیں کہ گملے نشانہ نہیں تھے۔ کورکمانڈر ہائوس کو آگ لگائی گئی لیکن گملوں کا خیال رکھا گیا۔ ریڈیو پاکستان کی پوری عمارت جلا کر ’’برج سیاہ‘‘ بنا دی گئی لیکن جا کر دیکھ لو، گملے آج بھی جوں کے توں پڑے ہیں۔
_____
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ 9 مئی کے مجرموں کو سزائیں نہ ملنا نظام انصاف پر سوالیہ نشان ہے۔
فرانس میں 9 مئی سے کم شدّت والے واقعات ہوئے، اڑھائی ہفتوں میں سزا ہو گئی، ایسا ہی امریکہ اور بھارت میں ہوا۔ ہمارے ہاں 9 مئی کو سال ہو گیا اور ’’احباب‘‘ پوچھتے ہیں آخر جلدی کیا ہے۔ بھٹو دور میں فوجی عدالتیں بنیں اور عمران خان دور میں تو اور بھی زیادہ بنیں۔ نہ صرف لوگوں کو سزائیں دی گئیں بلکہ جب بالائی عدالتوں نے ان میں سے بعض کی سزائیں معاف کیں تو عمران حکومت اپیل میں گئی کہ سزائیں معاف مت کرو، بحال کرو۔
اب عمران خان کی تحریک کہتی ہے فوجی عدالتیں غیر جمہوری ہیں چنانچہ سال بھر ہو چلا، فوجی عدالتوں کے بارے میں مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
_____
پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ 9 مئی کے مجرموں کو اپنے ’’کارناموں‘‘ پر معافی مانگنا ہو گی۔ اس پر جواب دیتے ہوئے سابق پرائمری ٹیچر اور حال ارب پتی سیٹھ نے فرمایا ہے کہ معافی تو ہم نے اپنے باپ سے بھی نہیں مانگی۔
بظاہر یہ ڈی این اے کے مسئلے پر انہوں نے روشنی ڈالی ہے۔ سابق پرائمری ٹیچر اور حال ارب پتی سیٹھ نے باپ کا ذکر پہلے بھی کئی بار کیا ہے۔ جب تحریک عدم اعتماد کا معاملہ چل رہا تھا تو موصوف نے فرمایا تھا، کسی کا باپ بھی تحریک عدم اعتماد پاس نہیں کرا سکتا۔ پھر چند ہی روز بعد تحریک پاس ہو گئی اور ایک رپورٹر نے ان سے اس پر سوال کیا۔ اس وقت وہ لفٹ کے اندر سوار ہو رہے تھے۔ پلٹ کر سابق پرائمری ٹیچر نے رپورٹر کو بہن کی گالی دی اور فوراً ہی لفٹ کا دروازہ بند ہو گیا جس کی وجہ سے مزید گالیاں سنائی نہ دے سکیں۔ ازاں بعد ایک موقع پر سابق پرائمری ٹیچر اور حال ارب پتی سیٹھ نے یہ بھی کہا تھا کہ کسی کے باپ میں ہمت نہیں ہے کہ ’’خان‘‘ کو ہاتھ بھی لگا سکے__ جی! بہرحال یہ ڈی این اے کا معاملہ ہے جس کی طرف اشارہ سیٹھ جی نے کیا ہے۔
352