گندم کی سالانہ کٹائی اور عین خرید و فروخت کے موقع پر ملک میں پہلے سے ہی نئی فصل کے برابر ہی ، قطعی بلاجواز درآمدی گندم کی موجودگی سے 90فیصد غریب کسانوں، قومی زرعی معیشت اور لاکھوں کی تعداد میں نانبائیوںکو جو یکدم دھچکا لگا، حکومتی وضاحتوں، صورت حال کو سنبھالنے کے اعلانات اور یقین دہانیوں کے باوجود، انکے اضطراب میں کوئی کمی واقع نہیں ہو رہی، بلکہ اس میںتادم تو اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ جملہ مسائل میں جکڑے دیہات کے غریب عوام (کسان و دہقانوں) کی جنم لینے والی اس بے چینی نے ضرورت سے دو گنا گندم کی منڈیوں اور صارفین تک کھپت سال بھر کی سٹوریج اور حکومت کی فوڈ سیکورٹی کی پالیسی، اسے شفاف رکھنے اور ضرورت کےمطابق طلب و رسد کے معاملات پر عوامی اعتماد کا گراف تشویشناک حدتک گرا دیا۔ تشویش اس کی کہ گندم کے لاکھوں چھوٹے کاشت کار اور ملک بھر کے نانبائی رزق حلال کمانے میں اچانک پیدا ہونیوالی بڑی مشکل سے مضطرب ہوگئے ہیں۔ دوسری تشویش کہ آئندہ سال کیلئے کسانوں کا گندم کی فصل سے معمول کا رزق کمانا مشکوک ہوگیا ہے جو جاری وساری پیداواری عمل میں بڑے خلل اور بڑے ہی فیصد میں غیر یقینی کاباعث بننے کا یقین پیدا ہوگیا ہے۔ کسان رہنما چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ اس اسکینڈل کے نتیجے میں محدود آمدنی والے لاکھوں کسان گھرانوں میں شادیوں، بچوں کی تعلیم اور بزرگوں کے علاج معالجے کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔
قارئین کرام اور تجزیے و تشکیل آرا کے قابل تعلیمیافتہ تمام ہی پوٹینشل شہریوں کوبھی اس اسکینڈل کے اس قدر اچانک اور عین نئی فصل آنے پر بے نقابی سے عشروں سے مسلط موجود نظام حکومت و سیاست پر بداعتمادی اور اس سے مایوس ہونے کا گراف یکدم بڑھا ہے جو جھوٹی روایتی حکومتی تسلیوں اور ان کو حاصل غیر پیشہ ورانہ ابلاغی معاونت سے بڑھنے کے باوجود نگران حکومت، موجودہ (پہلے ہی) اپنوں کے نزدیک بھی متنازع اور نحیف ہے۔ حکومتی پارٹیوں کو اپنی تقسیم اور ملکی سب سے بڑی اور مکمل ثابت شدہ پارلیمانی قوت کے تتر بتر ہونے اور رہنمائوں کی اسیری کے ماحول میں فقط حکومتی سطح پر ہی حالات حاضرہ میں کچھ ٹھہرائو آنے اور معیشت کو کچھ سہارے ملنے کے باوجود فکرِ وطن و عوام کم نہیں ہو رہی۔ آٹے روٹی سے بھی نکلے اربوں کی کرپشن کے اسکینڈل حکومتی ڈھانچے کو ہلا رہے اور بیمار سیاسی عمل کو مزید پیچیدہ کر رہے ہیں۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ یہ غوغا تب مچا ، جب برادر ملک سعودی عرب کا بڑا تجارتی وفد پاکستان کو اپنے وعدوں ،یقین دہانیوں اور چیف صاحب کی تیار کی گئی گرائونڈ کے مطابق بڑی سرمایہ کاری کے جائزے اور حکومت و تاجروں سے باہمی بات چیت کیلئے ملک میں موجود ہے۔ گندم اسکینڈل میں کتنی کرپشن ہوئی، کس کس نے کسان کی منڈی کے مقابل اپنی پیشگی منڈی لگانے پر کتنا مال کمایا، ذمے دار نگران ہیں یا نظام بد کی فن کار ی سے برائلر حکومتیں بنانے والے، بیوروکریسی یا سیاستدان اور ان سے جڑے مافیا راج (اولیگارکی) کے سرخیل یا سب کےسب حصہ بقدر جثہ، یہ کھیل کھلواڑ بدہی نہیں بدترین گورننس میں ہی مچایا جاسکتا ہے۔ نظام ریاست و حکومت میں بگاڑ کی وجوہات کی تمام تر نشاندہیوں کے عام ہونے کے باوجود ڈیزاسٹر کی اصل وجوہات کو اب بھی دبانے، اس پر پردے ڈالنے اور چھپانے کی ممکنہ کوششیں عوام مخالف اور خواص دوست گورننس کا خاصا ہیں۔ آج بھی اعلیٰ ترین مناصب اور عوامی خدمات کے محکمہ جاتی عہدوں پر تباہ کن ثابت ہونے والی بلاجواز ’’ایکسٹینشن‘‘ کی گنجائش رکھنے کی قانون سازی کے راستوں کی تلاش بھی ہو رہی ہے، بڑی سنجیدگی سے اس کے جائزے بھی لئے جا رہے ہیں۔ اس کی خبریں اور تجزیے اسٹیٹس کو کی سخت گیری اور قائم دائم رہنے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اب تک یہ نہیں بتایا جا رہا کہ نجی شعبے میں فاضل گندم کے درآمد کنندگان کون کون ہیں؟ اور اتنے اہم ترین ایجنڈے، گندم کی درآمد کی کابینہ سے منظوری بلااجلاس ممبر ٹو ممبر سرکولیشن سے کیوں ہے؟ یہ کتنا معنی خیز ہے۔ آخر اتنی کیا جلدی پڑی تھی کہ معمول کے یا خصوصی اجلاس میں غور اور بحث کے بعد اسکی منظوری نہ لی گئی۔ منظور کرنے والوں کے نام مطلوب نہیں؟ تفتیشی اداروں کو نہیں تو عوام اور کسان تو ضرور جاننا چاہتے ہیں کہ کس کس کابینہ میں سے کون سے جواہر نایاب تھے جنہوں نے اتنے حساس ’’ایجنڈے آئٹم‘‘ کی منظوری بغیر کیس سنے ،اس کی ڈاکیومنٹیشن کا جائزہ اور بریفنگ لئے بغیر، گھر بیٹھے دے دی۔ 8فروری کے عوامی فیصلے میں نظام بد کا مہلک زہر گھلنے کے بعد اسکی کوئی گنجائش رہ گئی تھی؟ اگر نگران حکومت نے ہی اتنے بڑے ڈیزاسٹر کی منظوری دے دی تھی تو اس کو فوری روکنے اور جنگی بنیاد پر انسداد کا کوئی انتظام کرنے کی بجائے،فصل اترنے تک فوڈ سیکورٹی کے اتنے اہم موضوع پر وفاقی اور پنجاب حکومت میں کوئی غورو خوض ہوا ہی نہیں جبکہ مہنگی روٹی سب سے سنگین عوامی مسئلہ ہے۔
بس بہت ہوگئی۔ یہ جو آج کل زور شور سے اصطلاحات کے بھاشن سنائے جا رہے ہیں، موجودہ گورننس کے معیار پر نظام انصاف و احتساب کو ’’شفاف‘‘ اور عوام دوست بنانے کی یہ روایتی لوریاں نہیں؟ اصل مقصد تو خدمت خواص ہی ہے۔ان سے ’’ایکسٹینشن‘‘ کی گنجائش ایک بار پھر سخت متنازع اور تیز ترین قانون سازی کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلتا نظر آ رہا، نکلا بھی تو یہ عوام نہیں یقیناً خواص کے مفادات کے تحفظ کا ہی ساماں ہوگا۔ گندم اسکینڈل کے شور کے متوازی گورننس کا یہ رخ اور رویہ شدت سے ’’پاکستان کی تعمیر نو‘‘کی راہ دکھانے، اس کیلئے مطلوب قانون سازی اور تمام وزارتوں اور عوامی خدمات کے محکموں میں سمائے عوامی فلاح کے موضوعات کو نالج بیسڈ بنانے، انہیں آئین و قانون کے تابع کرنے اور سب سے بڑھ کر پاکستان کو قائد و اقبال کے مشن و تصور اور مسلمانان ہند کے سیاسی مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کا اہتمام، موجو دہ مضطرب پاکستان کے ناگزیر بنیادی تقاضے ہیں۔ اس مقصد عظیم اور بڑی قومی ضرورت کو فوری ایڈریس اور پورا کرنے کیلئے مافیا راج (اولیگارکی) کے مقابل سول سوسائٹی کے عوامی فلاح اور استحکام و دفاع پاکستان کے حقیقی تقاضوں کو سمجھنے والے انٹرسٹ گروپس باہمی رابطے اور مشترکہ علمی پرامن اور قومی سوچ کی حامل سرگرمیوں کے جلد از جلد اہتمام کی قومی ضرورت اور اپنی ذمے داری پوری کرنے کیلئے آگے آئیں اور جلد آئیں۔ وما علینا الالبلاغ۔