وائے بدنصیبی، میرے منہ میں خاک ذمے دارانہ اور محتاط صحافت کے نام پر اب تو ملکی و عوامی وسیع تر مفادات سے جڑے تباہ کن حقائق کو بے نقاب کرنےسےگریز پیشہ ورانہ یا ’’احتیاط‘‘ بڑے قومی جرم کا احساس دلاتی ہے۔آج کا پریشان کن سوال نہیں جواب ہے کہ :وطن عزیز، اپنے قیام اور دفاع کی بیش بہا اور لاکھوں مقدس قربانیوں کے باوجود عشروں سے ملک پر مسلط مافیاراج (اولیگارکی) کی آئین و قانون کے مقابل اپنی من مانی اور اندھا دھند مالی کرپشن سے پاکستان ترقی معکوس میں مبتلا ہو گیا ہے، اب یہ سوال نہیں ،کھلا اور زبان زدعام پبلک ڈس کورس (عوامی بیانیہ ) میں تبدیل ہوا جواب ہے جوعوام پر ٹوٹے کوہ گراںکی سچی پکی صاف نظر آتی دردناک کہانی ہے جوفقط آج کے لٹے پٹے پاکستان کے مضطرب شہری کے طورخود کو نفسیاتی سہارا دے رہے ہیں ۔اس بدترین سیاسی اور اقتصادی حالت میں تووہ اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا فخر تو بھول ہی گئے ہیں۔
اب تو یہ نفسیاتی سہارے امید کی کرنیں اور حوصلے کا ذریعہ نہیں مزید اور تشویشناک مایوسی کو جنم دے رہے ہیں ۔اپنی چونکا دینے والی حیرانی و پریشانی و مایوسی کا مداوا پاکستان بنانے والے بزرگوں کی آل اولاد نے انتہائی صبروتحمل، بردباری، حکمت اور اجتماعی دانش سے 22ماہ تک مچی آئین شکنی ولا قانونیت اور بے مثال غیر جمہوری حکومتی اقدامات پر بے بسی یا بلا کے صبرو تحمل کے بعد 8 فروری کے عام انتخابات میں کمال خاموشی اور وقار سے دیا لیکن الیکشن کمیشن نے (اپنے تئیں) بڑی بے رحمی سے پاکستانی قوت اخوت عوام کوسبوتاژ کر دیا اور حالیہ ضمنی انتخاب میں بھی اس اولیگارکی کی ذہنیت کو عملاً دہرا دیا۔
قارئین کرام ! غور فرمائیں یہ جو ’’آئین نو‘‘ میں آپ کو سخت ملکی بحرانی کیفیت میں بھی’’ تابناک پاکستان ‘‘کے خواب دکھانے کا ’’ارتکاب‘‘ کیا گیا یا قومی حوصلہ مندی کی نحیف سی لیکن مسلسل اور مخلص قلمی کوشش کی جاتی رہی تو اب کیا غضب ہو گیا کہ ’’آئین نو‘‘ کا فقیری پیغام بھی مبتلائے کفر (مایوسی ) ہو گیا اللّٰہ معافی اس جرم کا ارتکاب فقط اس احساس سے ہو رہا ہے کہ اب شدید بیمار قومی معیشت میں جو مزید زہر گھولنے کی دیدہ دلیری مافیا راج نے اندر ہی اندر کر ڈالی اسے چھپانے اور اس پر ’’محتاط‘‘ رہنے کا تجزیہ بتا رہا ہے کہ اپنی حالت پر الرٹ رہنے اور انتباہ کی بھی تو آخر کوئی اہمیت و حیثیت ہے اور اگر یہ وقت پر نہ ہو مکمل نہ ہو تو ڈیزاسٹر پر ڈیزاسٹر ہی ہو گا۔فقیر کو تو یہ یوں لگ رہا ہے کہ لاکھوں کسانوں کو مبتلائے ماتم کرتے بے نقاب فاضل گندم اسکینڈل نے ہر حال میں ناقابل معافی اس جرم کے احتساب اور سزا کو 8فروری کے انتخابات کے حقیقی نتائج کی بذریعہ قانونی عمل ناممکن ہوتی بحالی یا حکومت و اپوزیشن کے متفقہ شیڈول کے مطابق ایک مخصوص ممکنہ حد تک مختصر مدت کے بعد عین آئینی مکمل (شفاف) انتخاب کے انعقاد سے بھی بڑی ناگزیر اور فوری قومی ضرورت بنا دیا ہے ۔ یہ معاملہ خلق خدا کے رزق کا ہے جو اس کی رحمت و برکت سے ہمیں وافر حاصل ہو رہا ہے لیکن اسے بھی خلق خدا پر محال کر دیا گیا۔
آئینی دعوے کے مطابق پاکستان آئینی اسلامی جمہوریہ ہے اس میں یہ ظلم توڑا جائے تو بھی ہمیں بحیثیت قوم اللّٰہ کی ناراضی کا خوف اور ڈر نہیں ہوتا تو چھوڑیں ملکی اور پارٹی سیاست کو پاکستان میں ہر مذہب کے جاننے ماننے والے خود ہی اندازہ لگالیں کہ اس کے نتائج کیسے نکلیں گے۔
قارئین کرام! ذرا سوچیے آپ سے زیادہ پیشہ ور صحافی، سرکاری نظام اطلاعات و نشریات کے کرتا دھرتا اور انہیں مینج کرنے والے بڑے دماغ اور میڈیا سکالرز ناقدین و محققین کہ یہ جو 300ارب روپے کا فاضل گندم اسکینڈل اچانک بھڑک کر ملک بھر میں پھیلا ہے اور اب صارفین کے ساتھ لاکھوں لاکھ کسان اور نان بائی سب ہی مضطرب ہو گئے یہ بے نقابی تب ہو جاتی جب ملکی اقتصادی بحران کے باوجود گندم کی اطمینان بخش ملکی خودکفالت کے یقینی ہونے پر بھی سرکار و دربار میں بیرون ملک سے سستی گندم اتنی بڑی مقدار میں (35ملین ٹن) ملکی پیداواری ہدف کے برابر ہی درآمد کرنے کی تجاویز اور سمریاں تیار ہو رہی تھیں تو بمپر گندم کی عین تیاری پر مایوسی اور کسانوں کی پہلے سے ہی معاشی حالت زار پر اتنے بڑے پیمانے پر گندم کی امپورٹ کا یہ بم نہ پھٹتا جس کا تبصرہ گھروں میں مہنگی اور سخت روٹی کے رونے دھونے سے کسانوں کی احتجاجی ریلیوں پر پولیس گردی تک محیط ہے ۔جب اس اسکینڈل کی سرکاری ڈاکومنٹیشن 16ماہی اتحادی اور پھر نگران دور میں ہوتی رہی ۔ کاش اس وقت اندر کی خبریں نکالنے والے مین سٹریم میڈیا کے رپورٹروں یا سوشل میڈیا کے سرگرم یوٹیوبرز اورWHISTLE BLOWERS میں سے کوئی اسکینڈل کی تیاری بے نقاب کرکے ایک ہفتے کا بھی فالو اپ چلاتا تو کسانوں کی قانون، روایتی اور انتہائی جائز رزق حلال کمانے والی گندم کی مارکیٹ کے مقابل سستی اور ناقص درآمد گندم کی یہ دھونس دھاندلی مارکیٹ، قائم نہ ہوتی اوربیڈگورننس کا اتنا بڑا ڈیزاسٹر ہمارے بدترین گورننس ماڈل میں بطور کیس سٹڈی شامل نہ ہوتا اب ہو گیا تو اقتصادیات کے مسلمہ ڈسپلن اور اس کے نالج کے حتمی اور مکمل TESTEDنتیجے کے مطابق اتنی فاضل گندم کی موجودگی میں وزیر اعلیٰ مریم کی نیک خواہش کے مطابق روٹی خودبخود 16روپے کی ہو جانی چاہئے بلکہ اس سے بھی سستی نہیں ہو رہی تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی نادیدہ قوت عوام ،حکومت، کسانوں سب کو چیلنج کرکے ذخیرہ اندوزی اور کنٹرولڈ سپلائی چین کی مرضی کی رفتار پر قادر ہے اور حکومت بے بس یا شریک ،بہت بڑا سکینڈل ہے بہت بڑا ڈیزاسٹر ا یہ ہو ہی گیا تو گن گن کر پیٹ کو دیکھ کر نہیں جیب کو دیکھ کر روٹیاں بنانے اور خریدنے والوں کی اشک شوئی کا تو کوئی انتظام کردیجئے۔ محترمہ مریم کچھ کریں غرباء آپ کے ساتھ ہیں وماعلینا الالبلاغ۔