62

امریکہ غلط اور صحیح کا معیار مقرر نہیں کرسکا

یہ بات تو یقیناً آپ جانتے ہونگے کہ امریکہ دنیا میں ترقی پذیر ممالک کو اسلحہ کی فروخت میں سب سے آگے ہے، شاید یہ بات آپ کے علم میں نہ ہو کہ امریکہ بہادر کے دنیا بھر میں 737فوجی اڈے ہیں جن کی قیمت لگ بھگ 137ارب ڈالر ہے (قیمت سے مراد یہ ہے کہ اگر ان فوجی اڈوں کی دوبارہ تعمیر کی جائے تو لاگت کم از کم 137ارب ڈالر آئے گی) جو بہت سے ملکوں کی جی ڈی پی (گروس ڈومیسٹک پروڈکٹ) سے بھی زیادہ ہے۔ 2021میں امریکی فوجیوں کی تعداد جو بیرونی ملک میں تعینات تھی دو لاکھ نو سو 75تھی جو اب5 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے ان کی دیکھ بھال اور مدد کیلئے 98ہزار چار سو 25مزید امریکی شہری بیرون ملک مقیم ہیں۔ پنٹاگان کی ایک رپورٹ کے مطابق ان فوجی اڈوں میں 32ہزار 7سو 23بیرکس، ہینگرز، اسپتال اور دوسری عمارتیں شامل ہیں علاوہ ازیں امریکی افواج نے ان ملکوں میں مزید 16ہزار 5سو 27عمارتیں لیز پرلے رکھی ہیں۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ فوجی اڈوں کی مندرجہ بالا تعداد کلی طور پر درست نہیں اور وہ یوں کہ پنٹاگان نے اس تعداد میں سربیا، کوسوو، عراق، افغانستان، اسرائیل، کرغستان، قطر، ازبکستان اور ہمارے پیارے پاکستان کے فوجی اڈوں کو شامل نہیں کیا، اس طرح سابق حکومت ناجائز دبائو ڈال کر جنگ کے نام پر اب تک ایک کھرب83 ارب ڈالر کی خطیر رقم کانگریس سے منظور کروا چکی ہے۔ یہ رقم چین، برطانیہ اور بھارت کے مجموعی فوجی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ بش انتظامیہ نے ’’ہوم لینڈ سیکورٹی‘‘ کے نام سے ایک محکمہ قائم کیا جو سالانہ 50ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے جبکہ دہشت گردی کے حملوں کو ناکام بنانے کیلئے امریکہ میں داخلے کے تمام راستوں پر چیکنگ کی مد میں 25ارب ڈالر سالانہ خرچ کر رہا ہے جس میں بتدریج ہرسال اضافہ ہو رہا ہے 2010ستمبر میں اوبامہ حکومت نے عراق اور افغانستان میں لڑی جانے والی جنگوں کیلئے 190ارب ڈالر کا مطالبہ کیا تھا جو منظور کر لیا گیا امریکی صدر اوبامہ نے آغازِ حکومت میں عراق اور افغانستان کی جنگوں کیلئے درکار رقم میں 43ارب ڈالر کا اضافہ کیا تھا ان کا کہنا تھا کہ اضافی رقم میں سے چھ ارب ڈالر افغانستان میں اضافی امریکی فوج کیلئے خرچ ہونگے جبکہ گیارہ ارب ڈالر سے امریکی افواج کیلئے بارودی سرنگوں سے محفوظ سات ہزار بکتر بند گاڑیاں خریدی جائیں گی۔ وزیر دفاع جو غیر ملکی دورے پر ہیں، نے سینٹ کو بتایا کہ امریکی فوجیوں کا جانی نقصان کم سے کم ہو سکے اس لئے ہم نے رقم کا کچھ حصہ دشمن کے حملوں سے بچنے اور فوج کے لئے ’’لڑاکا گاڑیوں‘‘ کی خریداری پر خرچ کیا ہے۔ 9ارب ڈالر مستقبل کی فوجی کارروائیوں کے لئے درکار ٹیکنالوجی اور آلات کی خریداری، چھ ارب ڈالر امریکی افواج کی فوری تعیناتی کیلئے تیاری، ایک ارب ڈالر امریکی سہولیات اور اڈوں کیلئے جبکہ ایک ارب ڈالر مقامی سیکورٹی عملہ کی تربیت اور انہیں اسلحے کی فراہمی کیلئے خرچ کئے جائیں گے۔ ان فضول خرچیوں کیلئے اتنے ڈھیر سارے ڈالرز کہاں سے آتے تھے؟ جواب ہے تیسری دنیا کے ممالک سے۔ اسکا ثبوت یہ ہے کہ سال 2022میں امریکہ نے تیسری دنیا کے ممالک کو دوسرے ممالک سے زیادہ ہتھیار فروخت کئے ہیں۔ سال گزشتہ تیسری دنیا جسے تھر ڈورلڈ بھی کہتے ہیں کے ممالک نے امریکہ سے ہی سب سے زیادہ ہتھیار خریدے، ان ممالک نے 43فیصد ہتھیاروں کی خریداری امریکہ سے کی جن کی مالیت 15.2بلین ڈالر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2022میں پاکستان، بھارت اور سعودی عرب نے سب سے زیادہ ہتھیار حربی ساز و سامان امریکہ سے خریدا۔ خود ساختہ خطرات میں گھرے ہوئے پاکستان نے صرف 2018میں ایک اعشاریہ 7بلین ڈالر مالیت کے ہتھیار خریدے۔ دکاندار امریکہ نے اپنے مال کی فروخت کا جواز مہیا کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فروخت کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نیو کلیئر بموں سے لیس پاکستان مخالف دہشت گردی جنگ میں اہم حلیف ہے۔ اسامہ، داعش ودہشت گردی کے نام پر اسلحہ کی فروخت امریکہ کیلئے ایک نہایت منافع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک اسامہ کو جینے نہیں دیتے تھے اور امریکہ مرنے نہیں دیتا تھا۔ دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ القاعدہ کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ داعش اور القاعدہ کی حمایت میں زبردست کمی ہوئی ہے جبکہ امریکہ کے اسلحہ کی فروخت بڑھ گئی ہے۔ امریکہ کو اسلحہ کی فروخت سے ہونے والی آمدنی8.4ارب ڈالر زیادہ ہو گئی ہے۔ ظاہر ہے اگر آمدنی میں اضافہ نہ ہوتا تو امریکہ دنیا میں اپنے فوجی اڈوں کےتحفظ اور عراق وافغانستان جنگ پر 600بلین ڈالر کیسے صرف کرتا؟ کانگریس ریسرچ سروس (سی آر ایس) کی ایک رپورٹ میں اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ امریکی انتظامیہ عراق اور افغانستان جنگ پر ہر ماہ 13بلین ڈالر خرچ کرتی تھی۔ رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے کہ صرف افغانستان پر ماہانہ اخراجات10بلین ڈالر آتے تھے، جبکہ تین بلین ڈالر افغان سیکورٹی کے حصے میں آتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق دیگر چھوٹے موٹے اخراجات اس میں شامل نہیں۔ سی آر ایس نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اوبامہ انتظامیہ نے مالی سال 2010کیلئے مزید فنڈز کی درخواست کی تھی جس سے 56بلین ڈالر صرف مڈل ایسٹ پرخرچ کئےگئے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2022تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ نے 1.4کھرب ڈالر خرچ کیے۔یہاں ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے گزشتہ ساٹھ برسوں میں امریکہ نے40غیر ملکی اور 23قوم پرست حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جس میں کامیابی کا تناسب زیادہ ہے۔ یہ حکومتیں اپنے عوام میں بے حد مقبول تھیں لیکن وہاں امریکہ کے مفادات محفوظ نہیں تھے۔

جس کو چاہیں تباہ کر ڈالیں

آج کل آپ کا زمانہ ہے!

بشکریہ جنگ نیوزکالم