130

غیرمعمولی واقعات سے ابھرتا ہوا اَلمیہ

25 مارچ 2024ء کو اِسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ معزز جج صاحبان کا سپریم جوڈیشل کونسل کے نام خط خود ایک غیرمعمولی واقعہ ہے، مگر اِس میں جج صاحبان پر دباؤ ڈالنے، اُنہیں ہراساں اور بلیک میل کرنے کے جو واقعات درج ہیں، وہ اَور بھی زیادہ غیرمعمولی نوعیت کے ہیں۔ حیرت اِس بات پر ہے کہ جب اِسی ہائی کورٹ کے جرأت مند جج جناب شوکت عزیز صدیقی نے اِس حقیقت کا انکشاف کیا کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اُن پر دباؤ ڈال کر اَپنی مرضی کے فیصلے کرانا چاہتے ہیں، تو اِس جرأتِ رندانہ پر اُن کے برادر ججوں نے اُن کا سوشل بائیکاٹ کر دیا۔ جب ظالم ایگزیکٹو نے موصوف جج کو اُن کی گستاخی کی سزا دَینے کے لیے اُن کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجا، تو اعلیٰ مرتبت کونسل نے جسٹس شوکت صدیقی کو ملازمت سے برطرف کر دیا جبکہ وہ چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہونے والے تھے۔

اِس تناظر میں چھ معزز جج صاحبان کا ضمیر جاگ جانا بڑا عجیب لگتا ہے۔ وہی سفاک ایگزیکٹو، جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی اِسی کڑی سزا سے دوچار کر دینا چاہتے تھے جس کے عذاب میں جسٹس شوکت صدیقی مبتلا کر دیے گئے تھے اور اُن کے حق میں ایک بھی جج اور ایک بھی وکیل کی آواز سنائی نہیں دی تھی۔ محترم جسٹس صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی، مگر عدالتِ عظمیٰ میں کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ وہ چیف جسٹس صاحبان اپیل سننے سے گریزاں رہے جو شاید اِیگزیکٹو کے ساتھ ملے ہوئے تھے، لیکن فاضل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان کے چیف جسٹس کا منصب سنبھالتے ہی پہلی فرصت میں جناب شوکت صدیقی کی اپیل سنی اور اَپنے فیصلے میں اُن کی برطرفی کو غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دِیا۔ اِس طرح اُن کا غصب شدہ منصب، اُن کی پنشن اور مراعات بحال ہو گئیں، مگر اُن کے وہ دو سال بحال نہیں ہو سکے جن میں اُنہیں ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننا اور اِنصاف کا بول بالا کرنا تھا۔ اِس کے علاوہ اُن بےرحم اشخاص کو بھی کوئی سزا نہ ملی جو اِتنے بڑے جرم کے مرتکب پائے گئے۔

چھ جج صاحبان کے خط میں ایک معزز جج نے یہ شکایت کی ہے کہ اُن پر دباؤ ڈالنے کیلئے اُن کے بہنوئی اغوا کر لیے گئے تھے اور اُن پر بڑا تشدد کیا جاتا رہا۔ اُن جج صاحب کے بارے میں جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ اُن کے بھائی فوج میں حاضر سروس میجر جنرل ہیں، تو ہم پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اسٹیبلشمنٹ میں اِس قدر طاقت ور تعلق کے باوجود اُن کے بہنوئی اغوا کر لیےگئے اور جسٹس صاحب آئین میں دیے گئے وسیع اختیارات کے باوجود کوئی بڑا قدم نہیں اٹھا سکے۔ جج صاحبان کے ضمیر جاگنے کا ایک ہی سبب نظر آتا ہے کہ جب سے قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بنے ہیں، تو اُن کی ڈھارس بندھی ہے اور اُن کے اندر اِعتماد پیدا ہوا ہے کہ اب انصاف ملنے کے امکانات روشن ہیں اور ماضی کی غلطیوں کا بڑی تیزی سے ازالہ ہو رہا ہے۔ توقعات کے عین مطابق چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ نے معاملے کا فوری نوٹس لیا ہے اور غیرمعمولی انداز میں ادارہ جاتی رسپانس دیا ہے۔ بلاشبہ وہ مبارک باد کے مستحق ہیں، مگر وہ عناصر جو جج صاحبان کے خط کو اَپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں، اُنہوں نے شکایات کے ازالے کے آئینی اور قانونی راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں اور چیف جسٹس صاحب نے کسی موقع پر کہا ہے کہ ’میری پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا گیا ہے۔‘

چیف جسٹس صاحب نے خط موصول ہوتے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج صاحبان سے ملاقات کی جن میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق بھی شامل تھے۔ اِس سے پہلے وہ سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان سے مشورہ کر چکے تھے۔ خط سپریم جوڈیشل کونسل کے نام لکھا گیا تھا جسے عدلیہ میں ایگزیکٹو کی مداخلت روکنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں، البتہ اِس کے چیئرمین چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں۔ اِس حیثیت سے اُنہوں نے قانون کے مطابق عملی قدم اٹھانا شروع کر دیے۔ تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اختیار حکومت کو حاصل تھا۔ مشاورت کے بعد طے پایا کہ فوری طور پر وزیرِاعظم سے رابطہ قائم کر کے اُنہیں تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے پر آمادہ کیا جائے، چنانچہ وزیرِاعظم شہبازشریف چیف جسٹس کی خواہش پر سپریم کورٹ گئے اور تفصیلی تبادلہ خیال کے بعد کمیشن کے قیام اور اِس کے سربراہ کے نام پر اتفاق ہوا۔ چیف جسٹس کی خواہش تھی کہ معاملات کی تحقیقات اُس شخص کے سپرد کی جائے جو قانون کی نزاکتوں کو بھی سمجھتا ہو اَور جس کی شخصیت پر قوم کو پورا اِعتماد ہو، چنانچہ سابق چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی کے نام پر اتفاق ہوا اَور وَفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اُن کی سربراہی میں کمیشن قائم کرنے کا اعلان ہوا۔ یہی سب سے مناسب راستہ اور طریقہ تھا۔ معقول انداز میں تحقیقات آگے بڑھتی جاتیں، سنجیدہ اَنداز میں سفارشات مرتب ہوتیں اور مجرموں تک پہنچنا آسان ہو جاتا، مگر ملک میں انتشار پھیلانے والوں کو یہ قانونی طریقہ پسند نہیں آیا اور طرح طرح کے مطالبات سامنے آنے لگے۔ اِس پر فاضل ریٹائرڈ چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی نے ذمےداری اٹھانے سے انکار کر دیا، چنانچہ چیف جسٹس آف پاکستان کو ازخود نوٹس لینا پڑا اَور سماعت کیلئے سات رکنی بینچ کا اعلان ہوا۔

چند ہی روز میں کئی غیرمعمولی واقعات رونما ہو چکے ہیں اور اِس امر کا خطرہ پیدا ہوتا جا رہا ہے کہ کہیں معاملات اِس قدر اُلجھ نہ جائیں کہ اُن کے بطن سے کوئی بڑا سانحہ رونما ہو جائے۔ ملک میں سیاسی انتشار ایک عجیب صورت اختیار کر چکا ہے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت سرکشی کے راستے پر چل نکلی ہے۔ پانچ چینی انجینئروں کی ہلاکت نے چینی قیادت میں بہت اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں تشویش ناک اضافہ ہو گیا ہے اور مسلح افواج کو درپیش چیلنج گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں سخت احتیاط اور دَانش مندی درکار ہے۔ تحقیقات کے جھمیلوں اور ہماہمی میں حساس مقدمات پر کاری ضرب پڑ سکتی ہے اور پورا عدالتی اور حکومتی نظام لرزہ براندام ہو سکتا ہے۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم