238

فلسفہ رمضان

ایک بار میں نے اذان کی آواز آنےسے پہلے گھڑی دیکھ کر افطار کرلیا کئی لوگ سنجیدگی سے اس شبہ میں پڑگئے کہ میرا روزہ نہیں ہے۔آجکل بعض روزے داروں کا حال یہ ہے کہ وہ اس کا سخت اہتمام کرتے ہیں کہ طلوع سحر سے کچھ منٹ پہلے کھانا پینا بند کردیں اور غروب آفتاب کے کچھ منٹ بعد افطار کریں۔ اس کا نام انہوں نے ’’ احتیاط‘‘ رکھا ہوا ہے۔ اس احتیاط کی زد میں عید کا چاند بھی آیا ہوا ہے۔

روزہ، جس کو عربی میں صوم، انگریزی میں فاسٹنگ اور ہندی میں برت کہتے ہیںہر مذہب میں کسی نہ کسی طور پایا جاتا ہے۔اگرچہ اس کی مدت اور اس کی شکل میں ایک مذہب اور دوسرے مذہب کے درمیان اختلاف ہے مگر وہ ایک یا دوسری صورت میں ہر جگہ موجود ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ نفس کو کنٹرول میں لانے کی تربیت ہے اور نفس پر کنٹرول(یا نفس کشی) کو ہر مذہب میں خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔ مذہب جس قسم کا انسان بنانا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کا نفس اس کی عقل کے قبضہ میں ہو اور روزہ آدمی کو اسی کے لئے تیار کرتا ہے۔ آدمی دوچیزوں کا مجموعہ ہے جسم اور روح جسم مادی اور کثیف ہے روح غیر مادی اور لطیف، اگر ہم ہر خواہش کو بے روک ٹوک پورا کرتے رہیں توجسم زور آور بن جائے گا اور وہ روح پر غالب آجائے گا روزہ اسی آزادی پر پابندی لگانے کا دوسرا نام ہے۔ روزہ آدمی کے جسم کو ایک حد کے اندر رکھ کراس کواس قابل بناتا ہے کہ وہ جسم پر حکمرانی کرے اس کا لطیف وجود اس کے کثیف وجود کو اپنے قبضہ میں رکھے۔ میرے حساب سے روزہ اپنی ظاہری شکل کےا عتبار سے مطلوب نہیں ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ آدمی صبح سے شام تک کھانا پینا بند رکھے تو بس یہ روزہ ہوگیا۔ روزہ کی یہ ظاہر صورت ایک علامت ہے اور اس کے ذریعے ایک خاص روحانی اور اخلاقی سبق دینا مقصود ہے، اوروہ سبق یہ ہے کہ دنیامیں آدمی کو چاہئے کہ وہ صحیح اور غلط اورجائز اور ناجائز میں فرق کرے وہ صحیح اور جائز کو لے اور غلط اور ناجائز سے اپنے آپ کوبچائے یہی وہ چیزہے جس سے وہ نجات کی راہ پاسکتاہے۔ رمضان کے مہینہ کو حدیث میں صبر کا مہینہ ( شہر البصر) کہا گیا ہے صبرواستقامت بلاشبہ زندگی کی بڑی طاقت ہے یہی تمام فتوحات اور کامیابیوں کا راز ہے، حقیقی روزہ صبر کی صفت پیدا کرتا ہے ۔ روزہ کیلئے عربی لفظ صوم کے اصل معنی ہیں رکنا، صائم کے معنی ہیں رکنے والا۔ زمانہ قدیم میں مشکل اوقات میں گھوڑا انسان کا سب سے بڑا ساتھی تھا، جنگ اور دشوار سفر میں وہ انسان کے کام کرتا،اس مقصد کیلئے تربیت دینے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ گھوڑے کو محدود مدت کیلئے بھوکا پیاسا رکھا جائے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ سختی کو برداشت کرسکے۔ اس طرح کے تربیت یافتہ گھوڑے کو خیل صائم ( روزہ دارگھوڑا) کہتے تھے۔ اس طرح صائم سے مراد وہ انسان ہے جوکھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے وقتی طور پررک جائے، یہ رکنا اور پرہیز کرنا آدمی کے اندر برداشت کی صلاحیت پیدا کرتا ہے وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ جب سختیاں اور دشواریاں پیش آئیں تو وہ ان کے مقابلہ میں پوری طرح جم سکے ۔ رمضان کا مہینہ آدمی کیلئے اپنے نفس اور اپنی خواہشات سے لڑنے کا مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جب انسان برائی کی طاقتوں کو زیر کرکے ان کے اوپر قابو پاتا ہے اور دوبارہ خدا کے نیک بندہ بننےکا عزم لیکر نئے سال میں داخل ہوتا ہے...تاریخ حیرت انگیز طور پر روزہ کی اس خصوصیت کی تصدیق کرتی ہے چنانچہ روحانی مقابلے کا یہ مہینہ اسلام کی تاریخ میں فوجی مقابلہ کامہینہ رہاہے،اسلام اور غیر اسلام کے کئی بڑے معرکے اسی ماہ میں پیش آئے ۔

جنگ بدر رمضان2ھ ،رسولؐ اور اصحاب رسولؐ کوقریش کے اوپر فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی۔

فتح مکہ رمضان8ھ ۔جس نے پورے عرب پر اسلام کو غالب کردیا۔

جنگ تبوک۔رجب میں شروع ہوکر رمضان میں ختم ہوئی۔

فلسطین رمضان15ھ عمروبن العاص نے فلسطین کو فتح کرکے بیت المقدس کواسلام کی حدود سلطنت میں شامل کیا ۔معرکہ اسپین رمضان 91ھ جب طارق بن زیاد نے اسپین میں کامیاب پیش قدمی کی۔

سندھ رمضان96ھ ، محمد بن قاسم سندھ میں داخل ہوا اور اسلام کو پھیلایا۔

اندلس رمضان 138ھ عبدالرحمن الد اخل اندلس میں داخل ہوا اور وہاں با قاعدہ سلطنت امویہ قائم کی۔ حروب صیلبیہ رمضان584ھ صلیبی جنگ میں صلاح الدین ایوبی نے صلیبی طاقتوں کو شکست دی۔ معرکہ عین جالوت رمضان658ھ جس نےتاتاریوں کو شکست دے کر مسلم دنیا میںان کی پیشقدمی کوروک دیا۔ جنگ سوئیز رمضان 1393ھ جب کہ مصری فوجوں نے اسرائیلی فوجوں کو شکست دے کر نہر سوئیز پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔اس قسم کے تاریخی واقعات بتاتے ہیں کہ روزہ اور جدوجہد میں کوئی تضاد نہیں ہےروزہ کی مشقت آدمی کو کمزور نہیں کرتی بلکہ وہ اس کو اس قابل بناتی ہے کہ زندگی کے معرکہ میں پہلےسےزیادہ قوت اور طاقت کے ساتھ حصہ لے سکے۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم