ایک خبر کے مطابق جنوبی افریقہ نے برف کی چادر اوڑھ لی ہے، اس کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں برف باری کی وجہ سے سردی میں خاصہ اضافہ ہوگیا ہے جبکہ روس جوکہ اپنی سردی کی وجہ سے مشہور تھا ان دنوں شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ ادھر پاک سرزمین میں سیلاب نے ڈیرے ڈالنے کا اعلان کردیا ہے۔ بھارت کی طرف سے حسب معمول دریائوں میں پانی چھوڑ دینے کی وجہ سے متعدد دیہات زیر آب آسکتے ہیں، بارش (بلکہ بارشوں) اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خوراک کی شدید قلت ہوسکتی ہے اوراشیائے خورونوش کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوسکتا ہے۔
شدید بارشوں کے باعث آنیوالے بدترین سیلابوں سے جہاں ایک کروڑ کے لگ بھگ پاکستانی بری طرح متاثر ہوئے تھے وہاں دنیا بھر میں ایسے افراد بھی کروڑوں کی تعداد میں ہیں جو موسم کی خرابی، خشک سالی، قحط سالی اور سیلابوں کی آفتوں کا بری طرح شکار ہورہے ہیں اور انہیں اپنا گھربار تک چھوڑنا پڑ رہا ہے۔ میرے حساب سے ان دونوں انتہائوں کی وجہ ایک ہی ہے اور وہ ہے گلوبل وارمنگ، جس کے باعث گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور موسموں کا توازن بگڑ رہا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات سمندروں کو خاص طور پر متاثر کررہے ہیں اور ان کی سطح بلند ہورہی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اگلی صدی کے آغاز تک کئی ساحلی شہر یا ملک دنیا کے نقشے سے غائب ہوجائیں گے جن میں خوب صورت جزیرہ مالدیپ سرفہرست ہے۔ یہ ملک بحر ہند کی سمندری سطح سے صرف دس فٹ بلند ہے۔ موسمی تبدیلیوں کے باعث سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے مالدیپ کے ڈوبنے کی اطلاعات تو پہلے سے ہیں جو عام طور پر لوگ جانتے بھی ہوں گے لیکن یہ بات یقینی طور پر بیشتر لوگوں کیلئے نئی ہوگی کہ مالدیپ کے علاوہ بھی کچھ ممالک ہیں جو موسمی تبدیلیوں کے باعث سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے مالدیپ جیسی صورت حال کا سامنا ابھی سے کررہے ہیں، ان ممالک کا ڈوب جانا ہی ضروری نہیں بلکہ میکسیکو سے روس تک غذائی اجناس میں کمی سے بھوک کی صورت حال بدترین ہورہی ہے اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں آبی جنگلات کی تعداد میں کمی ہورہی ہے لیکن بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ ان موسمی تبدیلیوں سے بڑا خطرہ چھوٹے بڑے جزیروں کا آہستہ آہستہ ڈوبنے کی طرف بڑھناہے اور سمندر کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے یہ ممالک زیر آب آرہے ہیں۔
ان میں پہلے نمبر پر بنگلہ دیش ہے جہاں سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے بیس ملین لوگوں کے بے گھر ہونے کا ڈر ہے جس کی واحد وجہ موسمی تبدیلیاں ہیں۔ پاپوانیوگنی، انڈونیشیا سے ملحقہ ایک ملک ہے جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ دنیا کا پہلا جزیرہ ہوگا جوموسمی تبدیلیوں کے باعث پورے کا پورا متاثر ہوگا اور یہاں تمام کے تمام افراد بے گھر ہوجائیں گے۔ تیسرے نمبر پر فلپائن ہے جہاں سطح سمندر میں اضافے سے ساحل کے قریب شہروں اور قصبوں کو خطرہ لاحق ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں چاول، مکئی، پھل اور سبزیوں کی فصلیں متاثر ہورہی ہیں۔ بارباڈوس بھی ایک ایسا ہی چھوٹا سا خوب صورت جزیرہ ہے جس کو موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے بقا کا خطرہ ہے۔پیسیفک آئی لینڈ میں زمین کے سب سے اونچے حصے پر بچھا جزیرہ کریبٹی اب سطح سمندر سے صرف دو میٹر اونچا رہ گیا ہے، اس جزیرے کو بھی آہستہ آہستہ سمندر کھا رہا ہے۔ سائنس دانوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں آنیوالی قدرتی آفات کی ایک وجہ ’’خلائی سونامی‘‘ کو بھی قرار دیا ہے۔ ہالینڈ کے ایک سائنسی میگزین میں یہ بتایا گیا ہے کہ گزشتہ12برس سے سورج غیر معمولی طور پر خاموش اور پرسکون رہا تھا لیکن2020ء میں سورج پر ہونے والی ’’سرگرمیاں‘‘ تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں، گزشتہ سال اسی مہینے میں سورج پر دو بڑے دھماکوں کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔
جس کے باعث بہت زیادہ توانائی خارج ہوئی، کئی سائنسدانوں نے اس عمل کو خلائی سونامی قرار دیا ہے، ان سائنسدانوں کے مطابق توانائی کا دھارا زمین کی طرف آرہا ہے، جس کی وجہ سے روس میں تاریخ کی سب سے زیادہ گرمی پڑی ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک سیلابوں کی زد میں ہیں۔ جبکہ یورپ میں لگا تار بارشوں کی وجہ سے گندم کی فصل کے متاثر ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے، ماہرین کے مطابق یورپ بالخصوص برطانیہ اور جرمنی میں بارشوں سے گندم کی فصل متاثر ہوئی ہے۔ بدقسمتی سے انسان نے دھرتی کے ماحول کو دو صدیوں میں اتنا بدل دیا ہے جتنا20ہزار سال میں نہیں بدلا گیا۔ 1750ء سے دنیا میں گرمی کا باعث بننے والی سب سے اہم گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں 3.26فیصد اضافہ ہوا ہے اگر مذکورہ گیس کا موجودہ تناسب برقرار رہا تو زمین کے درجہ حرارت میں مزید11فارن ہائٹ اضافہ ہوجائے گا، جس سے مچھلی کی صنعت اور پیداوار متاثر ہوگی۔ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کام کرنیوالے سائنسدانوں کی تنظیم آئی پی سی سی نے طویل عرصہ پہلے یہ پیشن گوئی کردی تھی کہ عالمی درجہ حرارت کے باعث آنے والے برسوں میں زیادہ شدت سے گرمی کی لہر پیدا ہوگی اور تیزبارشیں ہوں گی جسکے لیے ہمیں ابھی سے تیاری کرنا ہوگی اور جنگلات میں اضافہ کرنا ہوگا ۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال10ملین ہیکڑ زمین سے کاٹے جاتے ہیں، آج ہم نے گھنے جنگلات کو فنا کے گھاٹ اتار دیا۔ ندیوں کو نالوں میں تبدیل کردیا۔ دریائوں کو صحرائوں کا اور سمندر کو آلودگی کا طوق پہنا دیا۔ قدرت نے حسن خوبی سے تخلیق کردہ جس ماحول کو کروڑوں برسوں سے نازو نعم سے پالاہم نے اس کے سینے پر آری چلا دی ہے، پھر ہم یہ کیسے امید کرسکتے ہیں کہ قدرت ہمارے حال اور مستقبل کو سنوارتی سجاتی رہے گی، وہ وقت دور نہیں جب یہ ہم پر کاری وار کرے گی۔