انتخابات کی دوڑ میں شریک جماعتیں،آزاد امیدواراس مزدور کی بے بسی کا ادراک نہیں رکھتے جو کسی مخیر کی جانب سے مفت کھانے کے ٹرک یا گاڑی کی جانب دوڑتا ہے مبادا کہ کھانا ختم ہو جائے،گمان ہے کہ اسکی اولاد اگر اس کیفیت میں دیکھے تو جینے سے انکاری ہو جائے۔ یہ بیچارے کام کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں، دہاڑی لگ جائے تو ان کے چہرے کی مسکراہٹ دیدنی ہوتی ہے، ورنہ مایوسی میں خوف سے گھر نہیں جاتے کہ کیسے اپنے بچوں کا سامنا کریں گے،جن کی آمدنی کا واحد سہارا باپ کی مزدوری ہے،اقتدار کی دوڑ میں شریک کیا جانے اس مزودر باپ کا کلیجہ کیسے منہ کو آتا ہے جب اس کا بیٹا سکول یا کالج کی فیس مانگتا ہے ،بیٹی دوائی کے پیسے مانگتی ہے، بیوی گھر میں سودا سلف نہ ہونے کی شکایت کرتی ہے، جیب سے چند روپئے انکی جانب بڑھاتے ہوئے ،اس کے ارمان آنسووں میں بہہ جاتے ہیں، وہ دل تھامے اگلے روز کی مزدوری پر یہ سمجھ کر روانہ ہو جاتا ہے کہ قسمت میں یونہی لکھا ہے۔ ا نتخابی کامیابی کے لئے سرگرداں افراد اس بچے کے جذبات سے بھی ناآشنا ہوتے ہیں،جو اپنے والدین کا سہارا اس عمر میں بن جاتا ہے جب اس کے کھیلنے کے دن ہوتے ہیں، وہی بچہ دراصل گھر ہی کا بڑا ہوتا ہے،جو دن بھر قہوہ خانوں، ورکشاپوں، دوکانوں ،ہوٹلوں میں پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لئے مشقت اُٹھاتا ہے، اپنے استاد ،گاہکوںکی گالیاں سنتا ہے،رات تھک ہار کر سو جاتاہے، اگلی صبح پہاڑ جیسا دن اس کے سامنے ہوتا ہے، اس کی مزدوری کے اوقات کار بھی مقرر نہیں، اسکی طبیعت کیسی ہے،اس کے آجر کو اس سے کوئی غرض نہیں، والدین کی غربت سے وہ فائدہ اُٹھاتا ہے،چائلڈ لیبر کے سارے قانون اس بیچارگی کے سامنے ڈھیر ہو جاتے ہیں۔بوڑھی ماں کے ہاتھ پر پیسے رکھنے والا بچہ کیا جانے کہ مامتا کے دل پر کونسے نشتر چل رہے ہیں، وہ اپنے آنسووں کو ضبط کئے یہ پوچھنے سے قاصر رہتی ہے کہ کس مشقت سے وہ پیسہ گھر لاتا ہے۔ ایسے ہی سردی اور گرمی کی حدت میںگلیوں میں گھومتا خوانچہ فروش سماجی اور معاشی ناہمواری کی سزا کاٹ رہا ہوتا ہے۔ عوامی نمائندگان نے کبھی اس ''ماسی'' کے دل میں جھانک کر دیکھا ہے جو ہزاروں خواہشیں لئے کم اجرت پر گھروں میں کام کرتی ہے، ساتھ آنے والے بچے حسرت بھری نگاہوں سے صاحب ثروت گھروں کو دیکھتے ہیں،، وہ سہمے رہتے ہیں ،ماں کے کان میں کھانے کی فرمائش کرتے ہیں۔نجانے اس لمحے ماں اور بچے کے دل پر کیا گزرتی ہے انتخابی مہم میں مصروف امیدواران کو کاش! یہ توفیق بھی ہوتی کہ اس جاڑے میں وہ ان خاندانوں کی خبر لیتے جوشدید سردی اور دھند میں اپنی جھونپڑیوں میں بے یارومدد گار پڑے تھے، کیاکسی نے انھیں لحاف اور بستر دینے کا تکلف ہی کیا ہو،اگر ایسا کیا ہوتا تو سوشل میڈیاپر اسکی دھوم ہوتی۔ آج کا سفید پوش کسان بھی اسی درجہ بندی میں اس لئے آتا ہے کہ نسل در نسل زمین کی تقسیم سے کم آمدنی کے ہاتھوں وہ بھی پریشان ہے،مہنگی تعلیم ،بڑھتی مہنگائی کے سبب اسکی پوزیشن بھی مذکورہ مزدور سے مختلف نہیں فرق اتنا ہے وہ اس کے اظہار سے قاصر ہے، اسکا بھرم اور حیا آڑے آتی ہے۔ ملکی سطح پر 12ویں عام انتخاب منعقد ہوئے ہیں ،کوئی الیکشن ایسا نہیں تھا جس میں کسی پارٹی نے منشور پیش نہ کیا ہو، غربت کے خاتمے کا وعدہ نہ کیا ہو، روزگار کی فراہمی کا قصد نہ کیا ہو، چھت دینے کی یقین دہانی نہ کرائی ہو،آمدن میں اضافہ کی نوید نہ دی ہو، یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی پارٹی کوان انتخابات میں کامیابی نہ ملی ہو، وہ کرسی اقتدار پر براجماں نہ ہوئے ہو،یہ بد گمانی بھی نہیں کی جاسکتی کہ وہ با اختیار نہیں تھے، انھوں نے کابینہ بھی تشکیل دی ہوگی،ادارں کو بھی ہدایات جاری ہوئی ہوں گی، پارلیمانی پارٹی کے اجلاس بھی ہوئے ہوں گے، عوامی خدمت کے لئے تجاویز بھی دی جاتی ہوں گی، بجٹ بھی پیش ہوتے رہے ہوں گے، اپوزیشن بھی بحث میں شریک ہوتی رہی ہوگی، پارلیمنٹ میں پہنچنے والے امراء سب ہی غریبوں کی ہمدردی کا دم بھرتے ہیں ہر الیکشن مہم میں سماج کاپسماندہ فرد ہی ان کے پیش نظر رہتا ہے۔اسکی خدمت اور مدد کاصرف ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ دعوں اور وعدہ کے مابین جو فرق ہے، اس ''کو سرکار'' کہتے ہیں، کوئی دور ایسا نہیں گزرا جب اولین نے سابقین پر الزامات کی بوچھاڑ نہ کی ہو، خزانہ خالی کرنے، لوٹ ،مار کرپشن ،اقرباء پروری کی گردان تو ہمیشہ کا وظیفہ ہے۔ آپ گزشتہ اربع صدی کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، ارباب اختیارات کے بیانات کی سیاہی سے خوشبو تازہ ہی آئے گی، حکومت قوم کے وسیع تر مفاد میں فیصلہ کررہی ہے، ذخیرہ اندوزوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے، قانون کو ہاتھ میں لینے اجازت نہیں دی جاسکتی، بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا،مزدور کی اجرت ایک تولہ سونا کے برابر ہوگی، کوئی شہری چھت سے محروم نہیں رہے گا، وغیرہ وغیرہ۔ ان روایتی بیانات کا تسلسل اس لئے بھی ہے کہ 76 سالوں میںچند خاندان اور ان کے چشم و چراغ ہی ایوانوں تک پہنچتے رہے ہیں، ان کے وژن کی حد بھی محدود ہی ہے،ہمسایہ ممالک کی ترقی دیکھ کر نسل نو شکوہ کناں ہے۔ایسے حالات سے نکلنے کا راستہ اگر انتخابات ہیں تو اس مرحلہ سے قوم بار ہا گزری ہے، مگر اس کے باوجود مزدور اس روٹی کے پیچھے بھاگ رہا ہے جو مخیر حضرات سے اسے سر بازار ملتی ہے، گھر کا بڑا مگر چھوٹے کمائو پتر کو یہ سہولت میسر نہیں کہ وہ مقتدر طبقہ کی منعقدہ نشست میں شامل ہو کر یہ پوچھ سکے کہ مجھے تعلیم سے دور رکھ کر کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔کیا میرے اور والدین کے حقوق آئین میں نہیں لکھے، کھیل ،کو د،تفریح صرف اشرافیہ کے بچوں کا حق ہی کیوں ہے۔میرے خاندان کی غربت کے خاتمہ کے لئے قومی وسائل کم ہیں۔خواتین کنونشن میں ''ماسی'' پوچھنے کی جسارت کب کریگی،سرکار کا مقرر کردہ معاوضہ اسے ملے گا۔ ان سطور کی اشاعت تک الیکشن کے نتائج کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہو گا، نجانے اقتدار کا ہما کس کے سر پر بیٹھے گا، اپوزیشن میں کون برَا جمان ہو گا، چند ایام تک سب کچھ واضع ہو گا، خواہش ہے کہ نئی سرکار روایتی جھگڑوں، بیان بازی ،نوک جھوک، ذاتی مفاد سے آگے بڑھ کراب کچھ نیا کرے، جس کی فیوض و برکات سے ہر پسماندہ طبقہ لازمی مستفید ہو سکے۔
202