اسلام کے دشمنوں نے بہت سے ہُودہ رسومات، بد تہذیبی اور بد کرداری کے نئے نئے طریقے ایجاد کئے ہیں۔ جس کے لپیٹ میں پوری دنیا اور بطور خاص مسلم معاشرہ اس کے فتنہ سامانیوں کا ٹارگٹ ہے۔ مختلف عنوانات سے دنوں کو منانے اور اس میں رنگ ریلیاں رچانے کے کلچر کو فروغ دینا اور اس کی آڑ میں بہت سی بدعات، خرافات، واہیات اور بد اخلاقی و بے حیائی کو پھیلانے لگے۔ ان بے ہُودہ اور حیائی کے ایجنڈے میں شامل ایک 14 فروری کی تاریخ بھی ہے۔ جس کو ویلینٹائن ڈے، یومِ محبت اور یومِ عاشقان کے نام سے منایا جاتا ہے۔ اس دن تمام اخلاقی حدود کو پامال کیا جاتا ہے، بے حیائی اور بے شرمی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اور تہذیب و شرافت کے خلاف کاموں کو انجام دیا جاتا ہے۔ کالجز اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم اکثر طلباء و طالبات میں اس بے ہودہ مغربی رسم کو ہر سال منانے کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہیں۔ آیا مسلمان نوجوانوں کو پتہ ہے کہ ہمارے دین اور ہمارے تہذیب میں اس طرح بے حیاء و قبیح رسم کی اجازت ہے؟ تو مغربی کلچر کے افیون میں مبتلا اور مغرب و یورپ کے اندھے تقلید کرنے والے نوجوان سن لیں کہ یہ ویلنٹائن ڈے شرعی، اخلاقی، تہذیبی اور معاشرتی اعتبار سے ایک بے ہودہ رسم اور ایمان واخلاق کا جنازہ نکالنے والی دشمن کی ایک سازش ہے۔ اسمیں ڈھیر ساری خرابیاں و مفاسد ہیں۔ آئیں پہلے ویلنٹائن ڈے کی حقیقت کو جان لیں۔ دوسری صدی عیسوی میں روم کے بادشاہ کو لڑنے کا بہت شوق تھا۔ اس نے مضبوط فوج بنائی اور ہمسایہ ممالک پر فوج کشی شروع کردی۔ جنگیں طویل ہوگئیں، فوجی مارے گئے۔ بادشاہ نے نئی بھر تیاں شروع کردیں۔ روم کے نوجوان ان دنوں عیش پرستی کا شکار ہوچکے تھے۔ وہ فوج میں بھرتی ہونے اور جنگوں پر جانے سے کتراتے تھے۔ بادشاہ نے ان جوانوں کو فوج میں بھرتی کرنے کیلئے انوکھی ترکیب سوجھی، اس نے کنوارے مردوں کے شادی کرنے پر پابند لگادی۔ بادشاہ کا کہنا تھا، کہ کنوارہ نوجوان ذیادہ بہادری سے لڑتا ہے۔ اِن دنوں فوج میں بھرتی ہونے، لڑنے اور لڑائی سے واپس آنے والوں کو شادی کی اجازت تھی۔ یہ ایک ظالمانہ رسم تھا، تو اس وقت روم کے کیتھولک چرچ میں سینٹ ویلنٹائن نامی ایک پادری تھا۔ اس نے بادشاہ کی اس پابندی کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ رات کی تنہائیوں میں روم کے نوجوان مردوں اور عورتوں کو جمع کرتا اور اُن کی خفیہ شادیاں کرادیتا۔ بادشاہ کو اس کے خفیہ ذرائع نے سینٹ ویلنٹائن کی حرکات کی اطلاع کردی۔ ویلنٹائن رنگے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔ اسے گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا گیا۔ سینٹ ویلنٹائن جیل میں اتوار کے روز قیدیوں اور عملے کو عبادت کرانے لگا، اسی عبادت کے دوران ایک روز اس نے جیلر کی آندھی بیٹی دیکھی اور اس پر عاشق ہوگیا، وہ اسے خط لکھتا۔ یہ خط جیلر کی بیٹی کو اس کی ایک سہیلی پڑھ کرسناتی۔ ویلنٹائن پرمقدمہ چلا۔ اس نے اعتراف جرم کرلیا۔ جج نے اس اسے موت کی سزا سُنا دی۔ موت سے چند روز پہلے ویلنٹائن نے دنیا کا پہلا ویلنٹائن ڈے منایا۔ اس نے کاغذ کے ٹکڑے پر (From Your Valentin) لکھا اور اپنی محبوبہ کو بھیج دیا۔ یہ فروری 14 تاریخ تھی اور اس رات ویلنٹائن کو موت کی سزا دے دی گئی۔ اگلے سال روم کے نوجوانوں نے ویلنٹائن کی برسی پر ”ویلنٹائن ڈے‘‘ منایا۔ مؤرخین کے مطابق پہلا ویلنٹائن 207ء میں منایا گیا اور بعد ازاں اسمیں موسیقی، کا رڈ تقسیم کرنا اور سرخ گلاب دینا شامل ہوگئے۔ اور یوں یہ ویلنٹائن ڈے تہوار یورپ میں میں ایک اچھا خلاصہ کاروبار بن گیا۔ صرف برطانیہ میں پھولوں کی بارہ لاکھ دکانیں ہیں۔ ان دکانوں پر کینیا، ہالینڈ اور اسرائیل سے پھول منگوا کر رکھے جاتے ہیں۔ہالینڈ ہر سال 12 ارب ڈالر، اسرائیل 9 ارب ڈالر اور کینیا 6 ارب ڈالر کے پھول برآمد کرتے ہیں۔ یوں پھول ایک عالمی تجارت بن گئی تو ملٹی نیشنل کمپنیاں اس کاروبارہ میں آگئیں۔ یورپ میں اخبارات، ریڈیو، ذرائع ابلاغ، سائن بورڈز اور پوسٹروں کے ذریعے پھولوں کو کلچر کی شکل دی گئی۔ پاکستان میں 1965ء سے پہلے ویلنٹائن ڈے کا کوئی نام ونشان نہیں تھا، اگر کہیں منایا جاتا تھا تو وہ صرف کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹل تھے۔ لیکن اب پورے ملک کے نوجوانوں لڑکے لڑکیاں اس قبیح اور بے ہودہ رسم میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ غور کیا جائے تو اس پچھلے کئی دہائیوں سے یہ تہوار بنتا گیا۔ ایسا کیوں ہے؟ جب امریکہ سوپر پاور کے طور پر اُبھرا تو اس نے اسلام اور اسلام پسندوں کو اپنا دشمن قرار دے دیا۔ خلیج کی جنگ کے دوران امریکا کو محسوس ہوا کہ وہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو تو دبالے گا لیکن مسلم عوام اس کے قابو میں نہیں آئیں گے، لہذا اس نے سوچا کہ مسلم عوام میں ایک ایسا طبقہ پیدا کرنا ضروری ہے جو مغرب کا دلدادہ ہو، اور وہ ایسی بے ہودہ اور غیر اخلاقی چیزیں اسمیں اندر لے آئیں کہ وہ اپنی تہذیب و اسلامی اقدار کو بھول جائیں۔ اور وہی ہوا جو آج دیکھا جارہا ہیں۔ ہم نے کبھی اس بات پر غور کی ہے۔کہ پاکستان میں رفتہ رفتہ مغربی کلچر، پاپ موسیقی، بے حیائی وعریانی کیوں آئی؟ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا لباس کیوں فحش ہوگیا؟ نشے اور خصوصاً آئیس کی لت میں ہر نوجوان مبتلا نظر آتا ہے؟ مختلف رسومات وغیروں کے تہواریں منانے لگ گئے؟ بیوٹی پارلروں اور بے حیائی کے اڈوں کے جگہ جگہ سنٹرز ہے؟ شادیوں کے رنگ مغربی و غیروں کے رسومات سے بھرگئے؟ میڈیا پر فحاشی وعرکانی کا بازار گرم ہے؟ بداخلاقی اور جنسی ریپ کیسز میں اضافہ کیوں ہوگیا؟ موبائیل انٹرنیٹ کے پیکجز سستے کیوں ہوگئے؟ مخلوط تعلیمی ادارے اور این جی اوز میں کیوں اضافہ ہوتا گیا؟ آپ اِن سوالات پر غور کریں گے توآپ کی ناک بھی اس خطرے کی بُو کو سونگھ لے گی۔ اس خطرے کی بُو جو اسلامی ممالک کے نوجوانوں کی اخلاقیات کو موم کی طرح پگھلاتا جا رہا ہے۔ اِن تمام سوالات پر غور کرنے کے بعد آپ خود یہ محسوس کرینگے کہ یورپ، امریکا اور ان کے پیٹی بند بھائی جو کام تلوار اور بندوق سے نہیں لے سکے وہ اب کارڈ، گلاب، فیس بک، ٹک ٹاک ، پب جی گیمز اور ویلنٹائن ڈے جیسے تہواروں سے لے رہے ہیں۔ جب کوئی قوم دشمن کے کپڑے پہننے لگے۔ دشمن کے گیت گانے لگے اور دشمن کے تہوار منانے لگے، وہ قوم جنگ سے پہلے ہی شکست تسلیم کر چکی ہوتی ہے۔ آج اس بے ہودہ ویلنٹائن ڈے کے رسم نے بے حیائی کا ایک طوفان برپا کر دیا ہے، عفت و عصمت کی عظمت اور رشتہ نکاح کے تقدس کو پامال کردیا۔ معاشرہ کو پراگندہ ہ کرنے اور حیا واخلاق کی تعلیمات کی دھجیاں اُڑانے اور جنسی اختلاط کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس قبیح رسم نے معاشرہ کو بڑی بے دردی کے ساتھ بددامن اور داغ دار کیا ہے۔ ہوس پرست لال گلاب اور کارڈ منہ بولے داموں خرید کر جھوٹی اور ناجائز محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ منچلوں کیلئے ایک مستقل تفریح کا سامان ہے مگر اس جھوٹی اور ناجائز محبت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ محبت کی شادی کا دردنا ک انجام، خاوند کے ہاتھوں محبوبہ کا قتل، عشق کی خاطر بہن نے بھائی کا قتل کردیا، نوجوان نے خودکشی کرلی، ناکام عاشق نے لڑکی کو والدین، چچا اور ایک بھائی سمیت قتل کر ڈالا اور نوجوان لڑکی گھر سے عاشق کے ساتھ بھاگ گئی اور خاندان کے عزت کو خاک میں ملا دیا۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ وہ اخباری سُرخیاں ہیں جو نام نہاد محبت کی بناء پر معاشرتی المیہ بن چکی ہے۔ مسلم نوجوانوں کو اس طرح لغویات، واہیات اور بے ہودہ و غیر اخلاقی رسومات کا بائیکاٹ کرنا چاہیئے۔ اور اس کے مقابل اسلام کی حیاء کی پاکیزہ تعلیمات کو عام کرنے، سکولز، کالجز اور یونیورسٹیوں کے ماحول میں اور نوجوان اپنے حلقہ احباب میں اس دن کو حیاء کے دن کے طور پر یاد کریں اور اسلام کی بلند ترین تعلیمات کا خوبصورت نمونہ پیش کرنے والے داعی بنیں
