82

یوم یکجہتی کشمیر اورای میل مہم

دنیا میں دو ایسے مسائل ہیں جو 75سال سے حل طلب ہیں،ان میں ایک مسئلہ فلسطین ہے اور دوسرا مسئلہ کشمیر ہے۔مقبوضہ کشمیرکو بھارت کے غیر قانونی تسلط سے آزاد کرانے کے لئے پاکستان 5 فروری سن 1991سے ہر سال باقاعدہ یوم یکجہتی کشمیر مناتا ہے۔اس سال بھی یہ مقبوضہ کشمیر کے ساتھ بھرپور یکجہتی اور جوش و جذبے کے ساتھ منایا جائے گا۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق آزادی پسند جماعتوں کی جانب سے مقبوضہ وادی کے مختلف علاقوں میں پوسٹرز آویزاں کئے گئے ہیں جن پر یہ پیغامات درج ہیں ”گو انڈیا گو بیک،5 فروری کو یوم یکجہتی منانے پر پاکستان کے شکرگذار ہیں“نریندر مودی کی حکومت جس طرح بھارت میں مسلمانوں کے مقدس مقامات اور مساجد کی جگہ مندر بنانے کے مشن پر عمل پیرا ہے اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی کیا جارہا ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مودی حکومت نے چند ماہ کے دوران مقبوضہ کشمیر کے3 3کالجز،سکولزاور سڑکوں کے نام تبدیل کرکے انھیں ہندو ناموں سے منسوب کردیا ہے جبکہ اس سے قبل بے شمار تعلیمی اداروں،سڑکوں اور اہم مقامات کے نام بھی تبدیل کئے جاچکے ہیں دوسری جانب مسلمانوں کی املاک پر ناجائز قبضے کئے جارہے ہیں جبکہ آزادی کی آواز بلند کرنے والے رہنماوں اور مظلوم کشمیری نوجوانوں کو جیلوں میں بند کرکے شدیدتشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔تجزیہ نگاروں کے مطابق جیلوں میں قید کشمیری رہنماوں کو سلو پوائزن دیا جارہا ہے۔نئی دلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں قید جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ محمد یاسین ملک کے ساتھ جیل میں نجانے کیا سلوک کیا جارہا ہے کہ ان کی صحت دن بہ دن بگڑتی جارہی ہے۔یاسین ملک کو دل کا عارضہ اور گردوں کے مسائل ہوگئے ہیں اور جب ان کے علاج کے لئے ان کی والدہ نے عدالت سے رجوع کیا تو جیل حکام نے عدالت میں جھوٹا بیان جمع کروادیا کی یاسین ملک اپنا علاج نہیں کروانا چاہتے۔مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی عدالت نے کیس کی سماعت14 فروری تک ملتوی کردی ہے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت رواں برس بھارت میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطر یایسن ملک کو سزائے موت دلانے کی تاک میں ہے۔ مودی نے مقبوضہ کشمیرمیں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں اس پر انڈیا کے ہندوسیاسی رہنماوں نے بھی اسے مودی حکومت کی ناکامی قرار دیا ہے۔انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کاکہناتھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر میں دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کرکے ایک بڑی تزویراتی(اسٹیرٹیجک) غلطی کی ہے۔ راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ بھارت کا تزویراتی ہدف یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ چین اور پاکستان کو ایک دوسرے سے دور رکھتا لیکن نریندر مودی نے جو کچھ کیا اس سے دونوں ملک مزید قریب آگئے ہیں جو بھارت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔راہول گاندھی نے اس بات کا بھی اعتراف کیاتھا کہ ان کا ملک (انڈیا) کمزور ہوچکا ہے۔اسی طرح بھارتی ریاست تامل ناڈو کے وزیر اعلی ”ایم کے سٹالن “ نے 37مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کو ایک خط لکھ کر خبردار کیاتھا کہ بھارت کو کٹر پن، تعصب اور مذہبی بالادستی کے خطرے کا سامنا ہے اس لئے مودی حکومت ہر شخص کو یکساں معاشی، سیاسی اور معاشرتی حقوق و مواقع فراہم کرے۔ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے اور اس کے فوری تصفیہ کے لئے کشمیری نوجوانوں نے ”کشمیری ای میل مہم“ شروع کرنے کا علان کیا ہے جس کے تحت اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کو 10لاکھ ای میلز بھیجی جائیں گی جن میں کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلوانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دورہ حکومت کے دوران اب تک مقبوضہ کشمیر اوربھارت میں رہنے والے مسلمانوں پر جومظالم ڈھائے ہیں وہ تاریخ کے بدترین دن بن چکے ہیں خصوصا سال 2019 کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس سال ایک طرف دنیا بھر میں کورونا کی وباء نے جنم لیا تو دوسری جانب اسی سال نریندر مودی کی گھناونی سازش نے جنم لیا جس کے تحت مقبوضہ کشمیر میں جبری کرفیولگا کراس لی خصوصی حیثیت کوختم کردیا گیا۔بدلتی ہوئی سیاسی جغرافیائی صورتحال میں دیرینہ تنازعہ کشمیر کا باوقار اور پرامن حل ناگزیر ہے جس کے لئے بھارتی قیادت کو سنجیدگی اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ بامعنی مذکرات کے عمل کو آگے بڑھانا ہوگانہیں تو خطہ میں ایٹمی جنگ کے بادل چھائے رہیں گے۔

بشکریہ اردو کالمز