پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سے تعلقات میں بہتری اور تجارت کے بعدپاکستان میں سرمایہ کاری بڑھے گی۔ اسلام آباد ایکسچینج کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاک بھارت تعلقات میں پیشرفت اور تجارت میں تیزی سے غیر ملکی سرمایہ کاری ، صنعتوں میں استحکام اور قومی معیشت کی صورت حال میں مزید بہتری آئے گی۔
میں اپنی بات کا آغاز برطانوی راج سے کررہا ہوں۔ سترہویں @(17) اور اٹھارویں صدی میں ہندوستان ساری دنیا کی منڈیوں پر چھایا ہوا تھا۔ دنیا کی تجارت میں اس کا تیسرا نمبر تھا۔ اس وقت متحدہ ہندوستانیوں کی مصنوعات کی بیرونی ممالک میں زبردست مانگ تھی بالخصوص ہندوستانی پارچات اور اس سےبنی مصنوعات کی پوری دنیا میں بہت طلب تھی، چنانچہ ہندوستان کے کپڑے کے استعمال کو روکنے کے لئے ایڈن برگ میں محب وطن شہریوں کی ایک ایسوسی ایشن بنائی گئی، اس ایسوسی ایشن نے ہندوستانی اشیا کے خلاف زبردست مہم چلائی اور اعلان کیا کہ آئندہ سے ہندوستانی مصنوعات کے بیچنے، خریدنے اور استعمال کرنے والوں کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اگر کوئی شخص کسی سے چوری چھپے ایک گز ہندوستان کا کپڑا بھی خریدتا تو اس کا چالان کیا جاتا تھا۔ بعدازاں تقسیم ہند کے بعد دونوں ملک اپنا اپنا مال بیچنے کیلئے اورایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہوگئے اس دور میں ایک کہاں نکل گیا اور دوسرا کہاں رہ گیا۔
اس وقت پاکستان اور بھارت کی اقتصادی صورت حال میں بڑا نمایاں فرق ہے۔ بھارت میں مصنوعات بنانے میں لاگت کم آتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں پاکستان کی نسبت مہنگائی کم ہے اسلئے وہاں مزدوری سستی مل جاتی ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق بھارت کے صنعتی سرمائے پر شرح سود نصف ہے، علاوہ ازیں مارک اپ کے حوالے سے بھی بھارت کو ہم پر برتری حاصل ہے۔ اس وقت جنوبی ایشیا میں اس کی تجارت کا گراف اوپر جارہا ہے اور ہمارا نیچے کی جانب یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش سے بھارت کی تجارت 45فیصد ہے، نیپال سے 70فیصد، سری لنکا 50فیصد اور بھوٹان سے 80فیصد ہے ، یہ گراف اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کی موجودہ تجارتی پالیسی میں کوئی بڑی خامی موجود نہیں۔ اب جہاں تک دو ’’دشمن ملکوں‘‘ یعنی پاکستان اور بھارت کی تجارت کا معاملہ ہے وہ کچھ یوں ہے۔
بھارت اور پاکستان کے مابین تجارت کا آغاز تقسیم ہند کے ساتھ ہوگیا تھا۔ 1947ء سے شروع ہونے والی یہ دو طرفہ تجارت 1949ء تک پہنچتے پہنچتے 58فیصد ہوگئی تھی۔ پاکستان اپنا خام مال بھارت بھیجتا اور اس کے بدلے میں دوسری اشیاء درآمد کرتا۔ یہ سلسلہ بخوبی جاری تھا کہ 1949ء میں بھارت نے اپنی کرنسی یعنی روپے کی قیمت میں کمی کردی اور یہ چاہا کہ پاکستان بھی ایسا ہی کرے مگر پاکستان نے انکار کردیا،ان حالات میں تجارتی تعلقات مخدوش ہونا شروع ہوئے اور آخرکار دونوں نے تجارت بند کردی۔ یہ ڈیڈ لاک تقریباً دو سال تک قائم رہا۔ دونوں ملکوں میں تجارتی تعلقات کیسے سردمہری کا شکار ہوئے اور یہ ڈیڈ لاک کیوں وجود میں آیا؟ اس کی سمجھ مجھے تو کیا ماہرین معیشت کو بھی نہیں آسکی۔ اس کے بعد پھر تجارت کا ڈول ڈالا گیا تو اب کے اسے ’’بارڈر ٹریڈ ایگریمنٹ ‘‘ کا نام دیا گیا اور یہ تجارت جو 58فیصد تک جا پہنچی تھی اب صرف (1965ء تک) 2فیصد تک رہ گئی اور پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ 1965ء سے 1974ء تک آتے آتے یہ بالکل ختم ہوکے رہ گئی۔ 1974ء کے بعد دوبارہ ایک معاہدے کے تحت ملک عزیز نے بھارت سے رکشے درآمد کئے۔ بعدازاں 1982ء کے آتے آتے ایک معاہدے کی رو سے 142اشیا کی تجارت کا آغاز کیا گیا۔ اس معاہدے کا نام ٹریڈ کارپوریشن آف پاکستان تھا جو بعد میں ایک ’’بزنس کمیشن ‘‘ کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔ 1988ء تک تجارتی اشیا کی تعداد 42سے بڑھ کر 575تک ہو گئی، ایسی صورت حال میں حکومت پاکستان کے مثبت رویئے کی وجہ سے اسے ’’موسٹ فیورٹ نیشن‘‘ قرار دے دیا گیا لیکن پھریہ ہوا کہ مسئلہ کشمیر بیچ میں آگیا اور اسی موسٹ فیورٹ نیشن کی شکل بدل کر رہ گئی۔ اور ان دنوں پھر سے دونوں ملکوں کی تجارت تعطل کا شکار ہوکر رہ گئی یعنی دوسرے لفظوں میں مسئلہ کشمیر نے اسے یرغمال بنا لیا ہے بلکہ مجھے کہنےدیجئے کہ اس مسئلے نے دونوں ملکوں کے عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
ادھر عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرترقی پذیر ممالک اپنی آپس کی تجارت پر عائد محصولات میں کمی کر دیں تو اس سے خام مال کی قیمت میں بڑی کمی ہوگی اور یہ ممالک عالمی تجارت کی مسابقتی دوڑ میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں گے۔میں چاہتا ہوں کہ یہ دونوں ممالک زیادہ بہتر کارکردگی نہ سہی کم از کم بہترکارکردگی کا مظاہرہ ضرور کر دکھائیں وگرنہ۔
’’ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘