قیام پاکستان سے تقریبا ساڑھے سات سال قبل 61سال کی عمر میں اللہ کے حضور پیش ہونے والے مصورکشمیرو پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ 9نومبر 1877 کو پیدا ہوئے اور 21اپریل 1938 کو راہی آخرت بنے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کا تعلق کشمیر سے تھا اور کشمیر کی صورتحال پر ہمیشہ فکرمند رہتے اور کشمیریوں میں ہمیشہ جذبہ حریت بیدار کرتے رہتے معروف کشمیری مورخ محمد یوسف ٹینگ کے مطابق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے 1894میں کشمیر پر کہا توڑ اس دست جفاکش کویارب جس نے روح آزادی کشمیر کو پامال کیا علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ انگریزوں کی جانب سے 16مارچ 1846کو معاہدہ امرتسر کے تحت 75 ہزار نانک شاہی سکوں کے عوض ڈوگرہ شاہی خاندان کو کشمیر بیچنے پر سخت شاکی تھے چنانچہ اس بدنام زمانہ معاہدہ امرتسر کے بارے میں فرمایا کرتے تھے دہقان و کشت و جُو وخیاباں فروختند قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کے والد گرامی کا نام نور محمد کشمیری تھا انکو کشمیر سے اس قدر محبت تھی کہ سیالکوٹ منتقل ہونے کے باوجود وہ اکثر کشمیری زبان میں ہی بات چیت کرتے تھے اٹھارویں صدی کے آغازمیں علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کشمیری رحمہ اللہ کا خاندان شرف اسلام سے مالامال ہوا علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کے پردادا شیخ جمال الدین کے چاروں بیٹے شیخ عبد الرحمن ،شیخ محمد رمضان ،شیخ محمد رفیق اور شیخ عبداللہ اٹھارہویں صدی کے نصف کے بعد کشمیر کے ابتر حالات کیوجہ سے سیالکوٹ منتقل ہوئے علامہ موصوف کے والد گرامی شیخ نور محمد شیخ رفیق کے صاحبزادے تھے علامہ کی والدہ ماجدہ کانام امام بی بی تھا انکا تعلق پنجاب سے تھا علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کشمیر کے ہر معاملہ میں صف اول میں نظر آتے تھے یہی وجہ ہے کہ جب کشمیر میں کشمیریوں مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک بڑھا بالخصوص 13 جولائی 1931 کوسرینگر جیل کے اندر ایک سماعت کے دوران ایک مسلمان نے اذان دی جس پر ریاستی اہلکاروں نے فائرنگ کر دی جسکے نتیجے میں ایک ساتھ 22کشمیری شہید ہوگئے اس دلخراش واقعے کو پورے ہندوستان تک پہنچانے میں علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کشمیری رحمہ اللہ کا بڑا کردار تھا جسکے نتیجہ میں ملکی سطح پر یہ مسئلہ اجاگر ہوا چنانچہ 25جولائی 1931 کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیاجسکے پہلے صدر مرزا بشیر الدین کو بنایا گیا اور علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ اسکے جنرل سیکرٹری بنے بعدازاں مرزا بشیر الدین کے ناپاک عزائم سامنے آئے کہ انہوں نے کشمیر کو ڈھال بناکر قادیانیت کو فروغ دینے کی ٹھان رکھی ہے جس پر احرار الاسلام نے زبردست تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں مرزا بشیر الدین کو اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیناپڑا جسکے بعد علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کشمیری رحمہ اللہ کو 7مئی 1933کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کاصدر مقرر کیا گیا اور انکے ساتھ ملک برکت علی جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہوئے علامہ موصوف کو اپنے کشمیری ہونے پر بڑا ناز تھا اور اپنی اس نسبت کو نعمت غیر مترقبہ کے طور پر ذکر فرماتے اکثر اپنے آبائی وطن جانے کا عزم کرتے لیکن ڈوگرہ حکومت بھی علامہ کی کشمیر آمد میں رکاوٹ ڈالتی رہی لیکن بالآخر موصوف نے 1921میں براستہ کوہالہ کشمیر کا سفر کیا اور کشمیر میں پھیلی بے بسی اور بے کسی کو اپنے کلام میں پراثر انداز میں میں شامل کیا بہرحال کشمیر کی زرخیز زمین سے ایسی ایسی شخصیات نے جنم لیا جنہوں نے پوری دنیا پر اپنا لوہا منوایااور اپنے فن کے امام ہی نہیں بلکہ عدیم النظیر کہلائے دینی علوم کی درسگاہوں میں آج بھی علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ کا نام آتا ہے تو درودیوار جھوم اٹھتے ہیں انکے سامنے وقت کے امام طالب علم لگنے لگتے ہیں برصغیر پاک وہند میں تو علامہ کاشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کی نسبت کے بغیر نسبتیں ادھوری لگتی ہیں اسی طرح کشمیر کی سرزمین سے نسبت رکھنے والا ایک شخص ماضی قریب میں جب قلم اٹھاتا ہے تو وہ شورش کاشمیری کہلاتا ہے اس شخص نے قلم تھام کر صحافت میں عزیمت کا وہ راستہ دکھایا کہ آج بھی شورش کاشمیری کا نام لکھتے ہوئے قلم جھوم جاتا ہے انکی عزیمت کی داستانیں پڑھتے ہوئے عقیدت سے آنکھیں اشک بہاتی ہیں اسی طرح تقسیم ہند کےوقت پہلے انڈین وزیراعظم کا منصب پر فائز ہونے والا شخص موتی لعل نہرو کشمیری تھے اسی طرح پاکستان میں تعمیر وترقی کا جال بچھانے والے نواز شریف کا تعلق بھی کشمیر سے ہے بلکہ تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ ایران سے بادشاہت کا بوریا بستر گول کرکہ زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے والے خمینی بھی کشمیری تھے بلکہ یوں کہیں کہ کشمیر کی فضاؤں میں پرورش پانے والے وسیع ذہنوں نے اپنے قرب و جوار کے تین بڑے ملکوں (پاکستان ،انڈیا اور ایران) پر حکمرانی کی ہے پاکستان کا تو تصور بھی علامہ محمد اقبال کشمیری رحمہ اللہ نے پیش کیا اور کشمیر سے تعلق رکھنے والے شریف خاندان نےچار بار پاکستان پر حکومت کی اسی طرح انڈیا میں کشمیرسے تعلق رکھنے والے نہرو خاندان نے کم وبیش چالیس سال حکومت کی اور ایران میں بادشاہت کا خاتمہ کرکہ خمینی نے بھی زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لی جو کہ کشمیری تھے اللہ تعالیٰ کشمیر کی سرزمین کی زرخیزی کو مزید جلا بخشے اور کشمیر کو ایسے بہادر بیٹے دے جو کشمیر کی آزادی کا شرمندہ خواب کی عملی تعبیر پیش کرسکیں امین یارب العالمین
227