194

سچ ہماری سماعت پر خراشیں ڈال دیتا ہے

30؍مئی کو ہماری دنیا کی آبادی 8.2ارب ہو گئی۔ دنیا کے 8.2ارب ویں بچے بچی نے ہمارے ہمسائے میں جنم لیا۔ یو پی بھارت کے دارالحکومت لکھنؤ کے قصبے رمل درمیں واقع ایک ڈلیوری ہوم میں پیدا ہونے والی اس بچی کا نام نرگس رکھا گیا ہے۔ بدھ کی صبح 7بجکر 20منٹ پر 23سالہ ماں ونیتا نے ایک خوبصورت بچی کو جنم دے کر اپنا نام تاریخ میں درج کروا لیا ہے کہ اسکی بچی کی پیدائش کے ساتھ ہی دنیا آباد ی 8.2ارب تک جا پہنچی ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت کے کانگریسی رہنما غلام نبی آزاد نے کہا ہے کہ ہندوستان کے 8.2ارب ویں بچے کی پیدائش خوشی کی نہیں بلکہ فکر کی بات ہے۔ یاد رہے کہ بھارت میں ہر دس منٹ میں گیارہ بچے جنم لے رہے ہیں۔

دوسری طرف اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی آبادی کے 8.2ارب ویں بچے کی پیدائش کا اعزاز فلپائن کے دارلحکومت منیلا میں پیدا ہونے والی بچی ’’ڈانیکامے‘‘ کے حصے میں آیا ہے ڈھائی کلو گرام وزن کی یہ بچی بھی عین اسی دن، اسی گھنٹے اسی منٹ اور اسی سیکنڈ میں پیدا ہوئی جب بھارت کی نرگس نے جنم لیا ، سو دونوں بچیوں کو اعزاز کا حق دار قرار دیا جا رہا ہے۔ حق دار کو حق مل گیا لیکن اس حقیقت کا کیا کیا جائے کہ اس صدی کے آخر تک دنیا کی آبادی دگنی سے زیادہ ہو جائےگی۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا کی آبادی میں ہر سال آٹھ کروڑ انسانوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ جس نے ماہرین کو حیران کر دیا کہ دنیا کی آبادی میں اضافہ ان کی توقعات سے کہیں زیادہ ہو رہا ہے میرے حساب سے دنیا تباہی کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے جس میں آبادی میں تیز رفتار اضافہ ، ماحولیاتی تبدیلی اور تیل کی پیدا وار اپنے انتہائی درجہ پر پہنچ کر کم ہونا شروع ہو گئی ہے۔

گزشتہ چند مہینوں سے اس بارے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری تھا کہ 8.2ارب واں بچہ دنیا کے کس خطے میں جنم لے گا۔ اقوام متحدہ کے شعبہ آبادی کے ادارے نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ بچہ 31اکتوبر کو پیدا ہو گا سٹے بازوں کے مطابق یہ بچہ براعظم ایشیا میں ہو گا یاد رہے کہ 1999ءمیں دنیا کی کل آبادی چھ ارب کے ہندسے کو چھونے والی بچی بوسنیا میں پیدا ہوئی تھی۔ لیکن 8.2ارب ویں بچے کی پیدائش کے بارے میں یہ دلیل دی جا رہی تھی کہ ایشیا میں سورج دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت پہلے طلوع ہوتا ہے اور سائوتھ ایشیا میں بچوں کی پیدائش میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اس لئے قرعہ فال ایشیا بالخصوص سائوتھ ایشیا کے ہی نام نکلا جیسا کہ ابھی میں نے ذکر کیا ہے کہ چھ ارب ویں بچی بوسنیا میں پیدا ہوئی تھی اس کا خیر مقدم اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے کیا تھا، اس کی تاریخ پیدائش 12؍ اکتوبر 1999ءتھی اور اب اسکی عمر 19برس ہو چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس وقت کی عالمی آبادی دراصل اس شعبے میں ہونے والی ترقی،فیملی پلاننگ اور آبادی میں اضافے پر قابو رکھنے کیلئے کئے جانے والے اقدامات کا نتیجہ ہے اگر یہ صور تحال کنٹرول میں رہی تب بھی دنیا کی آبادی اس صدی سے آخر میں دگنی سے زائد ہو کر کنٹرول سے باہر ہو جائیگی اور اضافے پر قابو نہ رہا تو اس صدی کے اواخرتک خطۂ ارض پر انسانوں کی کل تعداد 27 ارب ہو جائے گی جس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہوا کہ موجودہ آبادی سے چار گنا زیادہ،اگر 1950سے فیملی پلاننگ کا ڈول نہ ڈالا جاتا، اس پر عملدر آمد شروع نہ ہوتا اور اس سلسلہ کو کامیابی سے آگے نہ بڑھایا گیا ہوتا تو آج دنیا کی آبادی کچھ اور ہی رنگ دکھا رہی ہوتی۔ یہاں مجھے ایک اور بات بھی واضح کرنی ہے، ایشیائی ترقیا تی بینک (ADB) نے گزشتہ دنوں ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ 2023 کے وسط تک ایشیا میں پہلی مرتبہ ایسا ہو گا کہ وہاں کی نصف آبادی دیہی علاقوں کی بجائے شہروں میں مقیم ہو گی ان کی ہجرتوں کا سلسلہ دو وقت کی روٹی سے بندھا ہوا ہے حکومتوں کےدعوئوں اور نعروں کے باوجود انہیں دو وقت کی روٹی نہیں ملتی دیہی علاقوں میں ایک تہائی آبادی ان لوگوں کی ہے جو مشکل سے گزارہ کرتے ہیں یعنی جتنا چاہیں اتنا نہیں کھا سکتے جبکہ ایک تہائی ان لوگوں پر مشتمل ہے جو غذا کو ترستے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہماری دنیا میں ہر 3.6سیکنڈ پر ایک موت بھوک کی وجہ سے واقع ہوتی ہے۔ ہر سال 15ملین بچے غذائی کمی کےباعث لقمہ اجل بن جاتےہیں۔

یہ توتھی ایشیا کی آبادی پر گفتگو اب میں مختصراً جہاں میں رہتا ہوں وہاں کا بھی ذکر کرتا چلوں۔ ایک اندازے کے مطابق یورپ میں اموات بدستور پیدائش سے زیادہ ہونگی اور یہ سلسلہ پوری یورپین یونین میں جاری رہے گا۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق 2025تک اٹلی کی آبادی کم ہونا شروع ہو جائے گی۔ اس کے ایک سال کے بعد یعنی 2026ء میں جرمنی، سلواکیہ 2027ءمیں پرتگال کی آبادی کم ہونا شوع ہو جائے گی اور پھر 2040ءتک برطانیہ بھی اس کی زد میں آجائے گا اورآخرمیں 2055ء تک یورپین یونین کے ممالک کی آبادی 20ملین کم ہو جائے گی۔

میں نے کہیں پڑھا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیشتر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جویہ سمجھتے ہیں کہ زندگی اس لئے ہے کہ اِسے خود کو شادی کے قابل بنانے کیلئے صرف کیا جائے اور شادی کا مطلب وہ لیتے ہیں بچے۔

ایک بیوی ہے چار بچے ہیں

عشق جھوٹا ہے لوگ سچے ہیں

بشکریہ جنگ نیوزکالم