1116

ٹکری ولیج کی حالت زار اور ہمارے حکمران

انسان معاشرتی حیوان کی حیثیت سے سماج کا سب سے باشعور جاندار ہے جو اپنے ذہنی اور جسمانی قابلیت کی بدولت اپنے سماج کو اس قابل بناتا ہے کہ وہاں اپنی زندگی بسر کرسکے۔دنیا کی ترقی اور دنیا میں آنے والی تبدیلیوں سے یہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ انسان ایک شعور یافتہ اور ترقی پسند جاندار ہے جو اپنی زندگی گزارنے کے لئے فلاح و بہبود کو ترجیح دیتا ہے۔ایک معاشرہ اگر ترقی پسند ہوتا ہے تو اس معاشرے میں بسنے والے لوگوں کی سوچ مثبت ہوتی ہیں اور جب کوئی معاشرہ پسماندہ ہوتا ہے تو اس معاشرے کے رہنے والے لوگوں کی سوچ بھی منفی ہوتی ہیں۔ وہ ترقی پسندی سے دور بھاگتے ہیں اور پسماندگی کو اپنی قسمت تصور کرکے اسی میں ہی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ان تمام صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ایک سماج پسماندہ کیوں ہوتا ہے اور دوسرا سماج کیوں ترقی یافتہ ہوتا ہے؟؟کیا یہ قسمت کا کھیل ہے یا حکمرانوں کی نا اہلی کا واضح ثبوت؟؟ کیونکہ صلاحیت تو ہر انسان میں موجود ہوتا ہے تو کیوں ایک سماج موجودہ گلوبل ولیج میں بھی پسماندگی کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہے؟
ایک سماج مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا مسکن ہوتا ہے جس میں ڈاکٹر، پروفیسرز،استاد، اسپورٹس مین،شوبز سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوتے ہیں اور وہ اپنے سماج کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
آج میں ایک ایسے معاشرے کے بارے میں آپ سے اظہار خیال کرنا چاہتی ہو جو اکیسویں صدی میں بھی دنیا کو دستیاب سہولتوں سے محروم ہے جس سماج کا میں حصہ ہو اس سماج میں آپکو ایسے لوگ ملیں گے جنکی اکثریت کا تعلق ماہی گیری کے شعبے سے ہے، اس معاشرے میں آپکو چند پروفیشنل لوگ ملیں گے لیکن آٹے میں نمک کے برابر جو مختلف شعبہ جات میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور چند ایسے نوجوان ہے جو کمپنیوں میں محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری پورا کرتے ہیں۔
ماری پور ٹکری ولیج صدیوں سے کراچی کے مضافات میں واقع ہے جسکی آبادی سات سے آٹھ ہزار کے قریب ہوگی جس میں بوڑھے،بچے،جوان اور خواتین شامل ہیں۔اس علاقے کے مکین آج بھی کمپرسی اور پسماندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔آج بھی یہاں تعلیم،صحت اسپورٹس، پانی، مواصلات، سیوریج کی سہولتوں سے محروم ہے۔
اگر تعلیم کی بات کی جائے تو تعلیم کی سہولیات میسر نہیں پورے سات ہزار کی آبادی کے لئے ایک اسکول مختص ہے وہ بھی پرائمری لیول تک جبکہ سیکنڈری کی تعلیم کے لئے لڑکے اور لڑکیوں کو علاقے سے باہر جانا پڑتا ہے جبکہ گرلز کے لئے ماری پور ایریا میں ایک بھی کالج نہیں۔
دانشور کہتے ہیں کہ جب ایک لڑکی تعلیم حاصل کرتی ہیں تو پورا خاندان تعلیم حاصل کرسکتا ہے لیکن ایک طرف ہمارے ہاں سہولیات موجود نہیں اور دوسری طرف پسماندگی کی وجہ سے تعلیم کی اہمیت سمجھنے سے قاصر ہے اسی وجہ سے لڑکیاں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے ماری پور سے باہر کالجز میں علم حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں جنکی تعداد ہاتھوں کی انگلیوں پہ گنی جاسکتی ہیں۔
صحت کے حوالے سے بھی اسی صورتحال کا سامنا ہے پورے علاقے کے لئے ایک بھی ڈسپنسری کا وجود نہیں معمولی سے معمولی بیماری انسان جان کے ضیاع کا باعث بن سکتا ہے جبکہ عوام کی اکثریت ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اسپتالوں کے مہنگے آخراجات ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور اسکولوں کی فیسوں کی ادائیگی بھی ایک مشکل امر ہے۔
سڑکیں نہیں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر سیوریج کا خستہ نظام جس نے انسانی زندگی پر نہایت ہی برے اثرات مرتب کئے ہیں جس سے پورا معاشرہ شدید متاثر ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹکری ولیج کی پسماندگی کا ذمہ دار کون ہے؟؟ تو صاف ظاہر ہے کہ پسماندگی کی جڑیں نا انصافی میں پیوست ہے کیونکہ منتخب ہونے والے پارلیمنٹینرز صرف ووٹ لیتے ہیں اور عمل کے دوران غائب رہتے ہیں۔
ماری پور ٹکری ولیج کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں صلاحیت سے بھرپور ہے لیکن حکومت کی غیر سنجیدگی اور ناانصافی کی وجہ سے ٹکری ولیج ایک پسماندگی کا منظر پیش کرتی آرہی ہیں۔
انہی نوجوانوں نے اپنے معاشرے کو جمود سے نکالنے کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت تعلیم دینے کا آغاز کیا ہے اور اسی طرح پھول سی معصوم کلھیوں کو منشیات یا دیگر سماجی برائیوں سے دور رکھنے کے لئے اسپورٹس کے لئے کام کیا جارہا ہے جو قابل ستائش عمل ہے۔
حکومتی اداروں کو چاہئیے کہ وہ ٹکری ولیج کی حالت زار پر غور کرکے یہاں ترقیاتی کاموں کا جال بچھائے تاکہ عوام کی ضروریات زندگی میسر آسکے اگر انہیں ضروریات زندگی فراہم کی گئی تو مستقبل میں ملک و قوم کے لئے اہم اثاثہ ثابت ہونگے۔
 

بشکریہ اردو کالمز