دنیا کیسے وجود میں آئی؟ پہلے کیا تھا؟ کیا کسی لفظ سے اس کا سفر شروع ہوا؟ ان سوالوں کا جواب مذہبی صحیفے اپنی طرح سے دیتے ہیں اور سائنس اپنی طرح سے۔ سائنس دانوں نے کائنات کے ان اسرارو رموز کو جو ہنوز پردہ راز میں ہیں کو بے نقاب کرنے کی ٹھان لی ہے ان راز ہائے کائنات کو آشکار کرنے کیلئے جینوا میں ریسرچ وتحقیق سے متعلقہ ادارہ سی ای آر این نے دنیا کا انتہائی پرتجسس اور تاریخی تجربہ شروع کردیا ہے اس تجربہ کیلئے 4 سے آٹھ مہینے درکار ہونگے، سائنس دانوں کے حساب سے اس پروجیکٹ پر 10بلین ڈالرز اخراجات آئے ہیں، 85 ممالک کے 8ہزار سے زائد سائنس دان اس تجرباتی عمل سے وابستہ ہیں جس میں بھارت کے200 سائنس دان بھی شامل ہیں۔ اس تجربہ کائنات کو لارج ہیرن کو لائیڈر یعنی ایل ایچ سی کا نام دیا گیا ہے یہ تجربہ کولائیڈر کے اطرف 27 کلومیٹر طویل سرنگ میں سطح زمین سے100میٹر نیچے شروع کیا گیا ہے۔
کائنات جمع ہے کائنہ کی اور کائنہ کے معنی ایسی چیز کا وجود میں آنا ہے جس کا پہلے سے کوئی نمونہ یا ماڈل موجود نہ ہو۔ ایک سائنسی اندازے کے مطابق کائنات کی وسعت 426ارب نوری سال ہے ۔نوری سال روشنی کی رفتار سے وجود میں آنے والی پیمائش ہے اور روشنی ایک سکینڈ میں ایک لاکھ86ہزار میل کا فاصلہ طے کرتی ہے اس حساب سے روشنی صرف دس سکینڈ میں 18لاکھ60ہزا رمیل کا فاصلہ طے کرے گی یعنی آپ نے دس بار سانس لیا ہوگا کو روشنی18لاکھ60ہزار میل آگے بڑھ چکی ہوگی اسی طرح صرف ایک منٹ میں روشنی کا سفر ایک کروڑ11لاکھ 60ہزار میل طے ہوگا۔کائنات کی وسعت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں ہماری زمین اس قدر چھوٹی ہے کہ صرف ایک سورج میں ہماری زمین جیسی13لاکھ زمینیں سماسکتی ہیں۔ ہمارا یہ نظام شمسی جس میں سورج چاند ستارے زمین اور متعدد سیارے ہیں ایک بڑے نظام کہکشاںیعنی جھرمٹ کا ، جس کانام AMDROMEDA ہے ایک بہت ہی چھوٹا حصہ ہے سائنس دانوں کے مطابق اوسط کہکشاں کی لمبائی87لاکھ کھرب کلومیٹر ہے جبکہ ہماری اس کہکشاں میں اوسطاً ایک کھرب ستارے سورج کی مانند موجود ہیں خود ہماری کہکشاں میں دوکھرب سے زیادہ ستارے موجود ہیں۔ خلائی سیاروں اور طاقت ور دوربینوں کے ذریعے اب تک صرف تیس ارب ستاروں کی تصاویر لی جاچکی ہیں حال ہی میں جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پیراگ میں انٹرنیشنل آسڑونومیکل یونین کے اجلاس میں شریک ماہرین فلکیات نظام شمسی کی نئی شکل پر متفق ہوگئے ہیں کہ اس نظام میں شامل سیاروں کی تعداد8سے بڑھ کر12ہوسکتی ہے۔
آج تک کائنات کے وجود میں آنے اور ختم ہونے کی ایک مقبول تھیوری ’’ دی بگ بینگ تھیوری‘‘(The Big Bang)ہے جس کے مطابق تقریباً20ارب سال پہلے ایک ایسا دھماکہ ہوا جس سے اس کائنات کی ہر شے وجود میں آئی اورآرہی ہے یعنی ہمارے نظام کی طرح کروڑوں نظام شمسی ظہور میں آتے جارہے ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق یہ سلسلہ کروڑوں یا اربوں برسوں تک چلتا رہے گا لیکن اسی تھیوری اور نظریہ کے مطابق ایک وقت ایسا آئے گا جب یہاں سے الٹا سفر شروع ہوجائے گا یعنی تمام نظام شمسی آپس میں ٹکرانے لگیں گے اور چکنا چور ہونے لگیں گے یہاں تک کہ یہ سب کچھ تتحیل ہوجائے گا اور جس طرح کائنات نفی سے شروع ہوئی تھی اسی طرح پھر مکمل نفی ہوجائے گی۔ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ یہ جو ہماری زمین ہے لاکھوں برس پہلے آگ کا ایک گولہ تھی کیونکہ وہ سورج کا ایک حصہ تھی اور اس سے ٹوٹ کرالگ ہوگئی تھی اس آگ کے گولے کو ٹھنڈا ہونے میں کروڑوں برس لگ گئے۔ بساط کائنات میں پھیلے ہوئے انگنت سیارے اور ستارے کھربوں سال سے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں ان کے اجسام سے انرجی کے اخراج سے ان کے اندر ایک تاریک خلا سا پیدا ہوتا ہے اور یہ خلا پھیلتا رہتا ہے جسے سائنسی اصطلاح میں بلیک ہول کہتے ہیں اور یہ بات سائنس دانوں کے مشاہدے میں آئی ہے کہ جب کوئی چھوٹا سیارہ کسی بڑے سیارے کے قریب سے گزرتا ہے تو بڑے سیارے میں موجود بلیک ہول اسے اپنے اندر کھینچ لیتا ہے۔ یہ سب کیسے اور کیونکر ہوتا ہے؟ یہی اہم راز منکشف کرنے کیلئے 8ہزار سائنس دان گزشتہ6برس سے کامیابی کیلئے کوشاں ہیں۔