110

زمان پارک میں موجود’’ وہ  تین‘‘ افراد کون ہیں؟

لاہور کے زمان پارک میں رونق لگی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کے ملک بھر سے آئے ہوئے کارکن اپنے قائد عمران خان کی حفاظت کے لئے نہ صرف موجود ہیں بلکہ اپنی موجودگی کا "ثبوت"  بھی دے رہے ہیں۔
 عمران خان کی اقامت گاہ کی حفاظت کرنے والوں کا جوش و جذبہ دینی بھی ہے اور دیدنی بھی۔ 
خود عمران خان کی آنسوگیس سے بچائو کے لئے ماسک پہنے گھر کے صحن میں ساتھیوں کے ہمراہ موجودگی کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہے اس تصویر میں انہوں نے وہ ماسک پہنا ہواہے جو نیٹو فورسز کے لئے آیا تھا۔ 
افغانستان سے امریکہ اور نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد صرف ماسک  ہی کیا جدید ترین اسلحہ، راکٹ لانچر اور دیگر بہت کچھ افغان بازاروں میں دستیاب ہے۔ کچھ سامان پشاور، لاہور، کوئٹہ وغیرہ میں بھی مل جاتا ہے۔ نیٹو فورسز والے ماسک  زمان پارک یقناً انہی بازاروں سے خرید کر لائے گئے ہوں گے۔ پھر یہ ماسک تنہا عمران خان نے ہی نہیں پہنا ہوا تھا درجنوں دوسرے لوگوں نے بھی تین دن قبل پولیس کی جانب سے آنسو گیس پھینکے جانے کے وقت پہن رکھا تھا۔
 جو چیز یا چیزیں بازاروں میں آسانی سے دستیاب ہوں ان کے حوالے سے سوال اٹھانا کہ وہ ’’تم یا تم تک کیسے پہنچیں‘‘ کم عقلی کے سوا کچھ نہیں لیکن جس معاملے کو تحریک انصاف سہل لے رہی ہے وہ ہے سوات کی سابق و کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدیؐ کے بانی صوفی محمد کے  سابق ترجمان اقبال خان کی اپنے 80 ساتھیوں سمیت زمان پارک میں موجودگی۔
 پی ٹی آئی کہتی ہے کہ وہ ہماری جماعت کے رہنما ہیں۔ یہ دعویٰ درست ہے کیونکہ  وہ 6 سے 8 ماہ  قبل تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے ۔ ان کی پارٹی کے لئے اہم ترین  خدمت یہ ہے کہ پچھلے برس جب سوات کے مختلف علاقوں خصوصاً مٹہ میں کالعدم تحریک طالبان کے عسکریت پسندوں کا ظہور ہوا اور بھتہ خوری کے نئے سلسلے کا آغاز تو یہ اقبال خان ہی تھے جو عسکریت پسندوں اور ان خاندانوں کے درمیان رابطہ کار ہوئے جنہیں بھتے کی  پرچی موصول ہوئی تھی۔
 اقبال خان کون ہیں؟ بہت سادہ اور آسان جواب ہے، یہ کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدیؐ کے بانی امیر صوفی محمد کے دست راست اور ترجمان رہے۔ صوفی محمد کی قیادت میں سوات سے جو لشکر افغانستان گیا تھا  یہ اس کے نائب امیر تھے۔ ان چند درجن خوش قسمت لوگوں میں شامل ہیں  جو زندہ واپس آئے۔
 بعدازاں جب صوفی محمد کے داماد ملا فضل اللہ کالعدم ٹی ٹی پی کے امیر بنے تو اقبال خان  اس کے مالیاتی رابطہ کار تھے۔ یہ مالیاتی رابطہ کاری کیا ہوتی  ہے؟  وہی جو پچھلے برس اس نے مٹہ وغیرہ میں موجود عسکریت پسندوں کے لئے کی یعنی بھتہ کی ادائیگی کے لئے درمیانی شخص کا کردار۔
 اقبال خان اپنے  دوسرے سابق ساتھیوں محمود خان اور مسلم خان کی طرح جیل میں تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں جب جنرل فیض حمید نے افغان عبوری حکومت کے توسط سے کابل میں کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات شروع کئے تو ٹی ٹی پی نے اعتماد سازی کے لئے اپنے اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے جن لوگوں کی رہائی کے لئے فہرست مذاکرات کاروں کے حوالے کی اس میں اس کا نام بھی  شامل تھا۔
 خیبر پختونخوا کی حکومت کی باضابطہ درخواست پر صدر مملکت نے کالعدم ٹی ٹی پی اور کالعدم ٹی این ایس ایم کے 180یا 183 افراد کی رہائی کے لئے صدارتی حکم نامہ جاری کیا تو اقبال خان بھی رہا ہوئے۔ 
180یا 183 میں سے 115افراد سزایافتہ تھے جیسا کہ محمود خان اور مسلم خان المعروف ریڈیو ملا۔ یہ سزا یافتہ قیدی تھے۔ کابل  مذاکرات کے نتیجے میں آبادکاری پروگرام کے تحت رہا ہونے والے زیادہ تر لوگ رہائی کے بعد افغانستان چلے گئے۔ 
اقبال خان خیبر پختونخوا کے اس وقت کے وزیراعلیٰ محمود خان بھائی کے ہمراہ سوات سے پشاور پہنچے اور تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔
 محمود خان کہتے ہیں میرا بھائی نہیں بلکہ علاقے کے چند معززین اقبال خان کو میرے پاس لائے اور یہ لوگ تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔
 بہرطور یہ شمولیت جیسے بھی ہوئی اس بات سے محمود خان انکار نہیں کرسکتے کہ انہوں نے اقبال خان کو خصوصی اہمیت ہی نہیں دی بلکہ سرکاری گاڑی کے ساتھ اعزازی ترجمان بھی بنایا تھا۔ یہی اقبال خان  اس وقت اپنے تقریباً 80 ساتھیوں سمیت پچھلے دس بارہ دنوں سے لاہور کے زمان پارک میں موجود ہیں نہ صرف موجود ہیں بلکہ وہ عمران خان کی حفاظت کرنے والے کارکنوں کی کمانڈ بھی کررہے ہیں۔ 
اقبال خان کی ساتھیوں کے ہمراہ زمان پارک میں موجودگی تماشا نہ بنتی اگر بھائی غفور والے آئی ایس پی آر کی ففتھ جنریشن وار کی ایک عظیم مجاہدہ (موصوفہ آجکل صحافی ہیں اور عمران خان کے انقلاب کی پرجوش مبلغہ  بھی) ٹیوٹر پر یہ ٹیوٹ نہ کرتیں کہ

 ’’آج عمران خان کی سکیورٹی ٹیم کی تیاری دو سو فیصد زیادہ ہے۔ خیبر پختونخوا سے تربیت یافتہ مجاہدین زمان پارک پہنچ چکے ہیں۔ آج  رینجرز اور پولیس نے لاقانونیت دیکھائی تو نقصان اٹھائیں گے۔ ملک کے محافظ  رہیں گے تو عزت ملے گی۔ دہشت گرد بنیں گے تو ویسا ہی جواب ملے گا۔ آج ہیلی کاپٹر کا علاج بھی تیار ہے وہ غلطی مت کرنا‘‘۔

 یہ ٹیوٹ 2315 بار ری ٹیوٹ ہوا ۔  اس سے  کچھ دیر قبل یا بعد میں اقبال خان کی تصویر سامنے آگئی جس میں وہ زمان پارک میں اپنے ساتھیوں سے خطاب کررہا ہے۔ 
عظیم مجاہدہ نے ایک دن بعد اپنی ٹیوٹ ڈیلیٹ کردی۔ لیکن  تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
 زمان پارک میں دو کالعدم عسکری تنظیموں کے سابق رہنمائوں کی موجودگی کے حوالے سے پشاور کے صحافی عقیل یوسفزئی کی خبر سچ ثابت ہوگئی۔ اب کہا یہ جارہا ہے کہ زمان پارک میں اقبال خان  کے علاوہ کریم باچہ اور رحمت اللہ نامی کالعدم ٹی ٹی پی کے دو اہم لوگ بھی موجود  ہیں۔ 
کریم باچہ کا اصل نام خان محمد آفریدی ہے اس کاتعلق ضلع کوہاٹ سے  ہے جبکہ رحمت اللہ کا تعلق  شمالی وزیرستان کے علاقے سے ہے۔ 
دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ ان تینوں کے ساتھ تقریباً 80افراد اور بھی ہیں اور یہ تربیت یافتہ ہیں۔ اقبال خان کی تصویر میڈیا پر آچکی وہ خود بھی ایک ویڈیو میں زمان پارک میں پی ٹی آئی کے رہنما کے طور پر موجودگی کا اعتراف کرتا ہے۔ 
80یا کم و زیادہ تربیت یافتہ افراد کی زمان پارک میں موجودگی کے دعوے کو  یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جن لوگوں کا خیال ہے زمان پارک کے باہر پولیس سے مقابلہ کرنے والے پی ٹی آئی کے شہری  کلاس کے کارکن ہیں وہ اپنی جگہ درست کہہ رہے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ زیادہ تر کارکنوں کا تعلق سوات، دیر، صوابی، پشاور، مردان اور شمالی وزیرستان سے ہے۔
 پانچ سات افراد ہنگو اور پارا چنار سے ہیں۔
 مناسب یہی ہے کہ اگر اقبال خان، خان محمد المعروف کریم باچہ اور رحمت اللہ کے ہمراہ واقعی کالعدم تنظیم کے 80افراد زمان پارک میں موجود ہیں تو جناب عمران  خان انہیں سختی کے ساتھ واپس جانے کے لئے کہیں۔
 ان کے اپنے مردوزن کارکن سینکڑوں کی تعداد میں ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ خاکم بدہن اگر اقبال خان وغیرہ کے ساتھیوں کی وجہ سے کوئی تماشا لگ گیا تو نقصان ہوگا۔ نقصان قانون نافذ کرنے والے محکموں کا ہو یا تحریک انصاف کا دونوں طرف انسان ہی ہیں۔
 اقبال خان وغیرہ کی زمان پارک میں موجودگی عام سی بات نہیں۔ باوجود اس کے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنی ویب سائٹ اور پیجز سے یکم مارچ والا وہ اعلامیہ ہٹادیا ہے جس میں تحریک انصاف کی حمایت کی گئی تھی اب جو اعلامیہ موجود ہے اس میں 6مارچ کے کسی اجلاس کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ ہم کفر کے نظام کے تو خلاف ہیں مگر کسی خاص جماعت کے حامی نہیں۔
 پھر بھی بہت سارے تحفظات ہیں بالخصوص اس صورت میں جب کابل میں سرکاری حکام یہ دعویٰ کررہے ہیں کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنا پہلا اعلامیہ تحریک طالبان افغانستان کے ذمہ داران کے حکم پر ہٹایا ہے۔
 یہ ویسا ہی ’’تماشا‘‘ ہے جو پشاور پولیس لائنز کی مسجد پر خودکش حملے کے بعد لگایا گیا تھا۔ پہلے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی گئی اور چند گھنٹے بعد پہلے اعلامیہ کی تردید کردی گئی۔ 
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی قیادت کو سوچنا ہوگا کہ کالعدم تنظیموں کے بعض سابق ذمہ داران کی زمان پارک میں ساتھیوں سمیت موجودگی کا عوام الناس میں کیا تاثر قائم ہوگا؟

بشکریہ اردو کالمز