غیر ملکی مندوب کے عالمی سیمنار میں ایک سوال نے شرمندہ کر دیا۔'' پوچھا کہ رمضان مبارک میں پاکستانی تاجر اور دکاندار قیمتوں کو دوگنا کیوںکر دیتے ہیں '' جواب دینے کی بجائے ہم غیر ملکی مہمان سے نظر میں چرارہے تھے۔ سوال سو فیصد درست تھا، یقیننا ہم نے ماہ صیام کو روزہ داروں کے لئے مشکل بنا دیا ہے۔ پھل، سبزیاں اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں یک دم اضافہ کر دینا کہاں کی دانشمندی اور کہا ں کی اسلام دوستی ہے؟دنیا بھر میں مختلف مذاہب کے پیروکار اپنے تہواورں میں اشیاء کی قیمتیں خاص حد تک کم دیتے ہیں کمپنیاں مروجہ نرخ میں کمی کی شمع روشن کرتی ہیں اور ایک ہم ہیں جو روزہ داروں کے لئے مصیبت کے دروازے کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا ایسا کرکے ہم اسلام کی خدمت اور صاحب اسلامۖ سے محبت کرتے ہیں، یقیننا ایسا نہیں ہے۔ گزشتہ برس ماہ صیام کے دروان فی کلو پیاز 400 کی شرح عبور کر گئی تھی۔ سیب اور آم غریبوں کی پہنچ سے دور چلے گئے تھے۔ غریب گھرانوں کے لئے افطاری دستر خواں پر پھل رکھنا مشکل میں نہیں بلکہ نا ممکن ہو گیا تھا۔خدارا! اس رمضان کریم میں آسانیاں پیدا کرنے کا عہد کریں۔ اللہ اور اسکے کریم رسولۖ خدمت خلق کرنے والوں کو اجر عظیم سے نوازتے ہیں۔ سعودی عرب ، ترکی اور ایران کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ان برادر اسلامی ممالک میں پورا ماہ اشیاء کی قیمتوں میں '' رمضان رعایت'' کا ٹیگ لگتا ہے۔ مسلمان پورے ماہ محبت اور عقیدت سے اللہ کے احکامات پورا کرتے ہیں ۔کاش ہم بھی اسلام کے سچے پیروکاری ہونے کا ثبوت دیں۔ دین اسلام معاملات میں نرمی پر زور دیتا ہے اللہ بھی نرمی ،آسانی اور رحمدلی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے…حضرت سلمان فارسی ۖ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے شعبان کے آخری دن ہمیں وعظ فرمایا تو فرمایا اے لوگو تم پر عظمت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے،یہ مہینہ برکت والا ہے جسکی ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے،وہ یہ مہینہ ہے جس کے روزے اللہ نے فرض کئے اور جسکی رات کا قیام نفل بنایا،جو اس ماہ میں نفلی بھلائی سے قرب الٰہی حاصل کرے تو گویا اس نے دوسرے مہینے میں فرض ادا کیا،اور جو اس میں ایک فرض ادا کرے وہ ایسا ہو گا جیسے اس نے دوسرے مہینہ میں ستر فرض ادا کئے،یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے،یہ غرباء کی غم خواری کا مہینہ ہے،یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے،جو اس مہینہ میں کسی روزہ دار کو افطار کرائے تو اس کے گناہوں کی بخشش اور آگ سے اس کی گردن کی آزادی ہوگی اور اسے روزہ دار کا سا ثواب ملے گا بغیراسکے کہ روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم ہو،ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ۖ ہم میں سے ہر شخص وہ نہیں پاتا جس سے روزہ افطار کرائے تو رسول اللہ ۖنے فرمایا کہ اللہ یہ ثواب اسے دیگا جو روزہ دار کو ایک گھونٹ یا کھجور یا گھونٹ بھر پانی سے افطار کرائے اور جو روزہ دار کو سیر کرے اللہ اسے میرے حوض سے وہ پانی پلائے گا کہ کبھی پیاسا نہ ہو گا حتی کہ جنت میں داخل ہو جائے،یہ وہ مہینہ ہے جسکے اول میں رحمت، بیچ میں بخشش اور آخر میں آگ سے آزادی ہے اور جو اس مہینہ میں اپنے غلام سے تخفیف کرے تو اللہ اسے بخش دے گا اور آگ سے آزاد کر دیگا۔ ایک اور مقام پر ہے کہ حضور نبیۖ اس مبارک مہینے کو خوش آمدید کہہ کر اس کا استقبال فرماتے اور صحابہ کرام سے سوالیہ انداز میں تین بار دریافت کرتے:''کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو؟''حضرت عمر بن خطاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا کوئی وحی اترنے والی ہے؟ فرمایا: نہیں۔ عرض کیا: کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے؟ حضور نبی اکرم ۖنے فرمایا: نہیں۔ عرض کیا: پھر کیا بات ہے؟ آپ ۖ نے فرمایا:''بے شک اللہ تعالیٰ رمضان کی پہلی رات ہی تمام اہلِ قبلہ کو بخش دیتا ہے۔،،ا حادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مخصوص دنوں اور مہینوں کی عظمتوں و برکتوں کا تذکرہ کرنا، اہل اسلام کو ان خاص دنو ں اور مہینوں کی عبادات کی ترغیب دینا اور تیاری کروانا بھی مستحسن ہے. نبی کریم ۖنے فرمایا'' یعنی اے لوگو! تم پر عظمتوں والا مہینہ سایہ فگن ہوگیا ہے،اس ارشاد گرامی میں بتایا گیا ہے کہ جس طرح درخت یا چھت انسان کو اپنے سایہ میں لیکر سورج کی گرمی سے بچاتے ہیں ایسے ہی رمضان شریف بھی بندہ مومن کو اپنے سایہ رحمت میں لیکر دنیا و آخرت کے عذاب سے بچا لیتا ہے،گویا کہ رمضان شریف اہل ایمان کیلئے رحمتوں اور برکتوں کا سائبان ہے جس خوش نصیب کویہ ماہ مبارک نصیب ہو جائے اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں،اور اس کا یہ بھی کمال ہے کہ یہ اہل ایمان کے پا س آکر رحمتیں اور برکتیں با نٹتا ہے جیسا کہ بادل آ کر برستا ہے اور ہر ایک کو سیراب کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ مبین میں اس فرقان عظیم کی جو خصوصیات بیان فرمائی ہیں ان میں سے ایک خصوصیت سورہ یٰسین کی آیت نمبر دو میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ " قسم ہے قرآن کی جو حکمت سے بھر پور کتاب ہے"۔ کوئی شک نہیں کہ قرآن ِ کے مطالعہ سے انسانی ذہن کو وہ تدبر اور وسعت حاصل ہوتی ہے جس کی مدد سے وہ اپنے عہد کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے ۔ قرآنی فکر کے ایک مبلغ فرمایا کرتے تھے کہ قرآن پاک ایک ایسی عظیم اور پر حکمت کتاب ہے جو قدیم کی تخریب میں بے رحم اور جدید کی تعمیر میں ہمدرد ہے۔ یہ حیوانیت سے انسانیت اور انسانیت سے یزدانیت کی طرف ارتقاء کرنے میں نوعِ انسانی کی پیشوائی کرتی ہے۔ حکمتِ قرآنی سے استفادہ کے لئے ضروری ہے کہ اس کو اسی طرح پڑھا اور سمجھا جائے جیسا کہ اس کا حکم ہے۔ قرآن پر غوروفکر کی تلقین کرتے ہوئے سورة بقرہ کی آیت نمبر 121 میں ارشاد ربانی ہے"جن لوگوں کو ہم نے یہ کتاب عنایت کی ہے وہ اس کو (ایسا)ہی پڑھتے ہیں جیسا کہ اس کوپڑھنے کا حق ہے یہ ہی لوگ اس پر ایمان رکھنے والے ہیں اور جو لوگ اس کو نہیں مانتے وہ خسارہ پانے والے ہیں۔"قرآن کریم سے منشاء الہٰی کے مطابق سبق حاصل کرنے کے لئے لازم ہے کہ قرآن کی تلاوت اس کے پورے اہتمام کے ساتھ کی جائے .ماہ رمضان میں ہم تلاوتِ قرآن کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ عام طور پر قرآن کو ترجمے کے بغیر پڑھا جاتا ہے جو تلاوت کے معنی ومفہوم کے بلکل برعکس ہے۔ تلاوت کی روح اور اس کا حق کیا ہے؟ حدیث مبارکہ ہے "قرآن کی تلاوت سے ہر حرف پر دس نیکی کا ثواب ملتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک ہی حرف ہے بلکہ الف ایک الگ حرف ہے ، لام ایک جدا حرف ہے اور میم بھی ایک علیحدہ حرف ہے''۔ اصحاب ِعلم و بصیرت اس حدیث مبارکہ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ الم کو پڑھنے سے 30 نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔