168

’’میں ہی عدالت ہوں‘‘

جسٹس ثاقب نثار نے 18اگست 2016ء کو ایک ایسا فیصلہ سنایا جس نے سربراہ حکومت یعنی وزیراعظم کے اختیارات محدود کرکے ایک نئے دور کا آغاز کر دیا۔پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری اور موبائل فون درآمد کرنے والی کمپنیوں کو سیلز ٹیکس میں استثنیٰ حاصل تھا جسے سیکرٹری فنانس نے 4اپریل اور30مئی 2013ء کو جاری کئے گئے دو احکامات کے ذریعے ختم کر دیا۔ کراچی کی چند بڑی کمپنیوں نے اس فیصلے کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا مگر یہ درخواستیں خارج کردی گئیں کیونکہ ٹیکس میں چھوٹ دینا یا نہ دینا حکومت کا استحقاق ہے۔اربوں روپے کمانے والی ان کمپنیوں نے ہار نہ مانی اور سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی گئی ۔یہ متفرق اپیلیں تین رُکنی بنچ ،جو جسٹس میاں ثاقب نثار ،جسٹس اقبال حمید الرحمان اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل تھا ،اس کے روبرو سماعت کیلئے مقرر ہوئیں ۔18اگست کو سپریم کورٹ کے ان جج صاحبان نے یہ اپیلیں منظورکرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیدیا۔79صفحات پر مشتمل فیصلہ جو جسٹس ثاقب نثار نے تحریر کیا اس میں واضح کیا گیا کہ آئین کے مطابق پالیسی بنانے اور فیصلے کرنے کا اختیار وفاقی حکومت کا ہے اور وفاقی حکومت سے مرا دکوئی فرد واحد نہیں ہے۔ وزیراعظم چیف ایگزیکٹو یعنی سربراہ حکومت ضرور ہے مگر اسکا کام کابینہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کروانا ہے۔ چنانچہ جو اختیارات وفاقی حکومت کو حاصل ہیں ،وزیراعظم ان کے تحت خود فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں بلکہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد ہی کوئی قدم اُٹھایا جا سکتا ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے فیصلہ تحریر کرتے وقت انگلستان کے حکمران شاہ لوئی (XIV)کا یہ قول بھی نقل کیا کہ’’میں ہی ریاست ہوں‘‘۔یعنی اگر وزیراعظم سب فیصلے خود کرنا شروع کردے تو پھر اسے جمہوریت نہیں بلکہ بادشاہت کہا جائے گا۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد وفاقی کابینہ کا عمل دخل بڑھ گیا۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ یوں یاد آیا کہ اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان چیف جسٹس کو حاصل اختیارات سے متعلق سوالات اُٹھارہے ہیں۔پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے حوالے سے لئے گئے ازخود نوٹس پر فیصلہ تو سنادیا گیا ہے مگر اس سے ڈور سلجھنے کے بجائے مزید اُلجھ گئی ہے۔پہلے 9رُکنی بنچ میں شامل جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے ازخود نوٹس لینے سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا پھر اگلے روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے مقدمات کو سماعت کیلئے مقرر کرنے اور بینچ بنانے کے طریقہ کار پر سنجیدہ اور اہم نوعیت کے اعتراضات اُٹھادیئے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے جو رولز آف بزنس بنارکھے ہیں ان میں از خود نوٹس کا کہیں ذکر نہیں کیونکہ یہ اختیار بہت بعد میں آئین کے آرٹیکل 184(3)سے کشید کیا گیا ۔لیکن دستور کی اس شق میں چیف جسٹس نہیں بلکہ سپریم کورٹ کا لفظ لکھا گیا ہے۔اگر وزیراعظم وفاقی حکومت کو حاصل اختیارات اکیلے استعمال نہیں کرسکتا تو چیف جسٹس سپریم کورٹ کو ودیعت کئے گئے اختیارات دیگر جج صاحبان کی مشاورت کے بغیرکیسے بروئے کار لاسکتا ہے؟غالباً2021ء میں کچھ صحافیوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت میں دہائی دی کہ خفیہ اداروں کی طرف سے انہیں ہراساں کیا جارہا ہے ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس حوالے سے نوٹس لیا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنی سربراہی میں کام کر رہے پانچ رُکنی بنچ کے ذریعے فیصلہ سنادیا کہ از خودنوٹس لینا صرف چیف جسٹس کا استحقاق ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس منیب اختر ،جسٹس قاضی امین او ر جسٹس مظہر بھی اس بنچ میں شامل تھے ۔

پہلے تو ہم جیسے کالم نگار تحفظات کا اظہار کیا کرتے تھے مگر اب ان سوالات کی بازگشت سپریم کورٹ کی راہداریوں میں ہی نہیں بلکہ کمرہ عدالت میں سنائی دینے لگی ہے۔کون سا مقدمہ کب سننا ہے،کن جج صاحبان کے روبرو سماعت کیلئے مقرر کرنا ہے ،ازخود نوٹس لینا ہے، نہیں لینا،کب کس جج کوبینچ سے الگ کرنا ہے،کس جج کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں فوری سماعت کرکے اسے فارغ کرنا ہے اور کس کے خلاف دائر کئے ریفرنس کو التوا میں رکھنا ہے ،یہ سب چیف جسٹس کے صدابدیدی اختیارات قرار دے دیئے گئے ہیں ۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کیس اسکی بہترین مثال ہے۔انہیں صفائی کا موقع دیئے بغیر نہایت عجلت میں فارغ کردیا گیا اور اب انکی اپیل سماعت کیلئےمقرر نہیں کی جارہی۔ 25اکتوبر 2018ء سے زیر التوا پٹیشن پر 13جون 2022ء کو آخری بار سماعت ہوئی ۔سپریم کورٹ میں جج صاحبان کی تعیناتی کے حوالے سے بھی چیف جسٹس کو لامحدود اختیارات حاصل تھے مگر پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے کسی حد تک توازن پیدا کردیا۔اب ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے 9رُکنی جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس ،وفاقی وزیر قانون ،اٹارنی جنرل ،بارکونسل کے نمائندے ،سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کے علاوہ سپریم کورٹ کے چار حاضر سروس سینئر موسٹ جج بھی شامل ہوتے ہیں ۔اسی طرح دیگر اختیارات خواہ وہ ازخود نوٹس لینے کے حوالے سے ہوں ،بینچ کی تشکیل سے متعلق ہوں یا ،مقدمات کو سماعت کیلئے مقرر کرنے سے متعلق ،ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔مقدمات سماعت کیلئے مقرر کرنے سے متعلق چند بنیادی اصول طے کئے جاسکتے ہیں۔ازخود نوٹس اوربینچ تشکیل دینےکیلئے سینئر ججوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جا سکتی ہے۔بہتر تو یہ ہوتا کہ سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان پر مشتمل فل کورٹ بینچ تشکیل دیکر اس معاملے کو خود ہی سلجھا لیا جاتا لیکن اگر ایسا نہیں ہوپارہا تو پارلیمنٹ کو اپنا کردار اداکرتے ہوئے اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہئے ۔کیونکہ جب تک فرد واحد کی اجارہ داری ختم کرکے ان اختیارات میں توازن نہیں لایا جاتا ،تب تک ملک آئینی بحرانوں کا شکار ہوتا رہے گا۔اگر’’میں ہی ریاست ہوں‘‘ کی گردان درست نہیں تو ’’میں ہی عدالت ہوں‘ ‘کاورد بھی ختم ہوناچاہئے۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم