اس کے والد بچپن میں وفات پا گئے تھے۔
ایک حاجی صاحب نے اس کی پڑھائی کا ذمہ اٹھا لیا۔
حاجی صاحب اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر اس کی علم کی پیاس بجھانے میں معاونت کرتے۔
اس شوق اور لگن کی وجہ سے وہ علاقہ بھر میں اول نمبر پر آتا۔
میٹرک کے امتحان میں بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
حاجی صاحب کے مال میں برکت ہوئی جس کو وہ اس کے مرہون منت سمجھتے۔
شہر میں جا کر بھی وہ وہاں کی رنگینیوں میں کھونے کے بجائے اپنی پڑھائی پہ توجہ دیتا رہا۔
دو سال بعد وہ ایف ایس سی میں بھی بورڈ میں پہلی پوزیشن لینے میں کامیاب ہو گیا۔
وہ مسیحا بن کر خلق خدا کی تکلیف کم کرنا چاھتا تھا۔
اس کی ہمت کے سامنے کھڑے سارے پہاڑ ریت کی دیوار ثابت ہوتے۔
ایم بی بی ایس کا داخلہ ٹیسٹ امتیازی نمبروں سے پاس کر گیا۔
اس کی سفارش نہ تھی اس لیے اس کو بڑے کالجز و شہروں کے بجائے ریگستان کے تپتے صحراؤں میں بنے میڈیکل کالج میں داخلہ دیا گیا۔
پانچ سال میں بھترین پوزیشن اور نمبرات کے ساتھ ایم بی بی ایس پاس کی۔
ہاؤس جاب کےلیے در در کی خاک چھانی۔اور بالآخر بلا معاوضہ ہاؤس جاب مل گئی۔
سولہ سولہ گھنٹے کی بلا معاوضہ مشقت کی وجہ سے وہ جسمانی طور کمزور تو ہو گیا لیکن اس نے حوصلہ نہ ہارا۔
پبلک سروس کمیشن پاس کیا اور اس کی تعیناتی دور افتادہ گاؤں میں میڈیکل آفیسر کے طور پہ ہوئی۔
وہ گاؤں اس دور میں بھی بجلی سڑک کی سہولت سے محروم تھا۔
کافی تگ و دو کے بعد اس کی ٹرانسفر اپنی تحصیل کے ھسپتال میں ہو گئی۔
اٹھارہ سال کی پڑھائی میں روزانہ اٹھارہ گھنٹے کی مشقت کے بعد وہ اس مقام پر پہنچ کے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہا تھا۔
ایک دن بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد وہ کرسی پہ ٹیک لگائے اپنی آنکھیں بند کر کے سکون حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ
ایک صاحب بلا اجازت اس کے ڈیوٹی روم میں داخل ہوئے۔
کمرے میں داخل ہونے والی شخصیت اپنے سکول دور کی نالائق ترین شخصیت کے طور پہ مشہور تھی۔
لوگ اس کو ڈاکٹر صاحب کے بارے میں بتا کر شرمسار کرتے تھے۔
کہ پڑھائی میں اس سے کچھ سیکھ لو۔
وہ حسد کی آگ اس کے اندر کبھی بھی ٹھنڈی نہ ہو سکی۔
ڈاکٹر کو کرسی پہ نیم دراز حالت میں فوراً ایک فوٹو بنائی اور ڈاکٹر کی غفلت کے نام سے پوسٹ سوشل میڈیا پر لگا دی۔
اس کے بعد انڈر میٹرک صحافت کے آگے اس کے اٹھارہ سال کی مشقت گھٹنے ٹیک گئی۔
اس کو نوکری سے معطل کر دیا گیا۔
دلبرداشتہ ہو کر اس نے سرکاری نوکری چھوڑ دی اور اپنی پرائیویٹ کلینک بنا لی
فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے تعاون سے اس نے جلد بڑا ہسپتال بنا لیا۔
اپنے بڑے ہسپتال کے دفتر میں وہ گھومنے والی شاندار کرسی پہ بلا خوف آرام کر رہا تھا۔
کیونکہ ہسپتال کے استقبالیہ میں اس نے بڑے بورڈ پہ تحریر کر رکھا تھا-
"ھسپتال میں ہر قسم کے کیمرہ سے فوٹو لینا سختی سے منع ہے