113

تین نہیں چار بندر تھے

ہمارا ایک رقیب ہے جو سفید ریش اور موئے سفید کی وجہ سے ’’روسیاہ‘‘ تو نہیں روسفید ہے لیکن بہرحال رقیب تو رقیب ہوتا ہے، کانٹا کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو چبھتا تو ہے، ماچس کی چھوٹی سے تیلی بھی خرمن جلانے کے لیے کافی ہوتی ہے، اسی رقیب روئے سفید اور موئے سفید کی وجہ سے آج کل ہم نے آئینہ دیکھنا چھوڑ دیا ہے کہ جب بھی آئینے میں دیکھتے ہیں، سامنے حاضردانت نکوس رہا ہوتا ہے۔

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد

ڈرتا ہوں آئینہ سے کہ مردم گزیدہ ہوں

آج بھی آئینے پر نظر پڑی تو چہرے پر ایک ’’طعنہ‘‘ پھیلائے کھڑا تھا اور ہمیں ایک تحقیقی پروجیکٹ میں الجھا کر چھوڑا کہ طعنہ ان تین بندروں کا تھا جو اکثر دانا دانشور بطور ڈیکوریشن پیس استعمال کرتے ہیں، ویسے تو بھارت والوں نے ان بندروں کو گاندھی کے نام کیا ہوا ہے کیوںکہ اس سرزمین میں یہ خاصیت ہے کہ جو کچھ یہاں کہیں سے بھی آجاتا ہے۔

مذہب، نسل، نظریات، عقائد، زبانوں، ایجادات، انکشافات یا اقوال زریں جو کچھ بھی یہاں آجاتا ہے ان پر یہ لوگ اپنا ٹھپہ لگا دیتے ہیں یعنی ان کو ہندیا۔ یا۔۔ گاندھیا لیتے ہیں اور اس ہمارے رقیب روئے سفید اور موئے سفید نے ہم پر ان تین بندروں کا سوال داغا ہے کہ ہم اتنے محقق بنے پھرتے ہیں تو یہ پتہ لگائیں کہ یہ تین بندر جو ہندیا اور گاندھیا لیے گئے ہیں، اصل میں کہاں کے ہیں۔

اس تحقیقی پروجیکٹ کے پہلے ہی مرحلے میں ہمیں پتہ لگ گیا ہے کہ بندر اصل میں تین نہیں بلکہ چار تھے اور یہ لاطینی امریکا چلے گئے تھے تو ایک اور بھی ان کے ساتھ تھا لیکن نہ جانے وہ چوتھا بندر کہاں غائب ہو گیا یا کسی نے چرا لیا۔

محفل میں کس نے آپ کو دل میں چھپا لیا

دکھنے میں چور کون ہے پہچان جائیے

چور اور چوری کے مال کو تو بعد میں دیکھیں گے، پہلے ان بندروں کے وئیر اباؤٹ اور دولت و اثاثہ جات پر تحقیق کا ٹٹو دوڑاتے ہیں، یہ تین بندر آج کل انٹیلکچول لوگ بطور ڈیکوریشن پیس استعمال کرتے ہیں کیوںکہ ہمارے ہاں ایک رواج یہ بھی ہے کہ جو چیز ’’اولڈ‘‘ ہو جاتی ہے اس سے ڈیکوریشن کا کام لیا جاتا ہے جیسے پرانے سکے۔

پرانے برتن اور پرانے والدین بلکہ پرانے شوہر بمقام ہالی وڈ جسے چرا کر ان پرانے عادی چوروں نے گالی وڈ بنایا ہوا ہے۔ کسی تقریب میں بچوں کے دو گروپ ایک میز کے گرد بیٹھے ہوئے تھے، ایک گروپ نے ایک آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، وہ ہمارے ڈیڈی ہیں آج کل۔ دوسرے نے دیکھ کر کہا، یہ تو بڑے اچھے آدمی ہیں ہم نے دوچار مرتبہ بطور ڈیڈی استعمال کیا ہے۔

خیر تو بندروں کی اس تری مورتی میں ایک نے کانوں پر ہاتھ رکھے ہیں جسے کا مطلب لوگ یہ نکالتے ہیں کہ یہ بندر اپنی اولاد کو تلقین کر رہا ہے کہ برا مت سنو۔ دوسرا جس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھے اپنی اولاد کو یہ نصیحت کر رہا ہے کہ برامت دیکھو۔ لیکن ہمیں اپنے تحقیق کے دوران پتہ چلا ہے کہ ’’برا‘‘ کا لفظ لوگوں نے بعد میں شامل کیا ہے جب ان بندروں کی اولاد نے بعد میں ’’برا‘‘ سیکھ لیا تھا، بندروں نے صرف یہ کہا تھا کہ مت دیکھو، مت سنو اور مت بولو، کہ یہی تین کام تمام برائیوں کا سرچشمہ ہیں۔

اگر تین دانا اجداد کی نصیحت ان کی اولادوں نے مانی ہوتی تو دنیا کتنے امن وسکون سے ہوتی کہ بزرگوں کا کہا نہ ماننے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے، ان کی اولادوں میں اگر آج یہ سننے، کہنے اور دیکھنے کی بیماریاں نہ ہوتیں تو دنیا جنت کا نمونہ ہوتی لیکن کیا ہے؟ وہ سب کو پتہ ہے اور وجہ دیکھنے سننے اور بولنے ہی کی ہے۔

اس چوتھے بندر کا سراغ لگاتے لگاتے پتہ چلا کہ خیبر تک تو وہ ان کے ساتھ تھا لیکن خیبر سے گزرنے کے بعد کہیں عدم پتہ ہوگیا اور ہمیں اب اس کا پتہ لگانا تھا، معاملہ گھمبیر تھا لیکن ہم بھی آخر مستند اداروں کے سند یافتہ اور تربیت یافتہ محقق تھے۔

اور تحقیق کا بنیادی اصول ’’معلوم سے نا معلوم‘‘ کا پتہ لگانا ہوتا ہے چنانچہ ہم نے ان تین معلوم بندروں سے معلوم کیا کہ چوتھے بندر نے اپنے ہاتھ کہاں رکھے ہوئے تھے اور اس کی نصیحت کیا تھی۔ سوچتے سوچتے اور کھوجتے کھوجتے آخر کار معلوم ہوگیا کہ اس چوتھے بندر نے یقیناً اپنے ہاتھ اپنے ’’ہاتھوں‘‘ پر رکھے ہوئے تھے یعنی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا تھا کہ نہ کرو یعنی کچھ بھی نہ کرو کہ ساری مصیبت کرنے میں ہے بلکہ دنیا کی ساری مصیبتیں کرنے سے پیدا ہوتی ہیں جیسے جنگ کو لے لیجیے جو صرف نہ کرنے سے ختم ہوتی، باتیں بھی نہ کرنے سے ختم ہوتی ہیں، یوں ان چار بندروں کی نصیحت اور وصیت اپنی اولادوں کے لیے مکمل ہو گئی تھی، کہ مت دیکھو، مت سنو، مت بولو اور مت کرو۔

اور خیبر کے بعد جو علاقہ آتا ہے جہاں آج کل پاکستان واقع ہے وہ چوتھا بندر یہاں کے لوگوں نے چرا لیا تھا، بات دو اور دوچار کی طرح صاف ہوگئی، اس خطے میں دیکھیے کہ نہ کرنے کا رجحان زیادہ ہے۔

خاص طور پر حکومتی سطح پر جو ادارے ہیں، محکمے ہیں اور ان میں موجود لوگ ہیں، ان سب کا ’’ماٹو‘‘ ہے، مت کرو، کچھ بھی مت کرو جو ’’کام‘‘ کی فہرست میں آتا ہے اور چونکہ باقی تین بندر آگے چلے گئے تھے اس لیے۔ ان کو پتہ ہی نہیں کہ انھوں نے کہاں کہاں ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔

بشکریہ ایکسپرس