دہشت گرد مسلمان نہیں ہوسکتے ہیں( قومی لطیفہ ) 

 

تحریر : علی مدد 

 

- یہ مسلمان ہیں مگر اراہ راست سے بھٹکے ہوئے۔  

- یہ توحیدی بھی ہیں مگر فتنہ و فساد والے۔

- یہ نعرہ تکبیر والے ہیں مگر نا حق کیلے۔ 

- یہ صوم و صلوٰۃ کے پابند بھی ہیں مگر بے عمل ہیں۔ 

- ان کا حلیہ و وضع قطع مسلمانوں والا یے مگر دھوکہ ہے۔

- یہ پاکستانی ہیں چند ایک افغانی و ازبک  بھی ہیں مگر

  نمک حرام ہیں، اسلام و پاکستان دشمن ہیں۔ 

-  یہ رحمت اللعالمین کے پرامن و مقدس دین کے ماننے والے ہیں مگر دین کی حقیقی روح سے نابلد ہیں۔ 

- یہ پاکستان کی آئین و قانون کو نہیں مانتے ہیں۔

- یہ اکثریت پاکستانیوں کو مسلمان نہیں مانتے (واجب

   القتل قرار دیتے ہیں) سوائے ان کے نظریے کے لوگوں کے۔ 

- یہ مسلمان ہیں مگر کرائے کے قاتل ہیں٫ دین ، اخلاقیات،

   انسانیت، تہذیب ، علم و حکمت سے دور دور کا تعلق نہیں 

   ہے۔ 

- پاکستان و افغانستان بالخصوص سابقہ پختون قبائلی

   علاقہ جات  میں ان کی مضبوط پناہ گاہیں و نرسریاں

   موجود ہیں۔ 

- ملک کے تمام حصوں میں ان کا نظریہ مختلف شکلوں و 

   صورتوں  میں موجود ہے کہیں پوشیدہ تو کہیں اعلانیہ ۔ 

- ایک اندازے کے مطابق پورے پاکستان میں 40 فیصد اور

   خیبر پختونخوا میں 60 فیصد ابادی بلواسطہ یا بلا

   واسطہ اس نظریے کو سپورٹ کرتے ہیں۔ 

- یہ مٹھی بھر نہیں ہیں یہ تواقعات سے بھی  زیادہ ہیں ،

   مشروم کی طرح بڑی تیزی سے آگ رہے ہیں ، نشونما پارہے

   ہیں۔ ہاں ملک میں معاشی بدحالی ، ناانصافی ، بیروزگاری

   اس میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ 

- اس نظریے کے لوگ جو پورے پاکستان و باہر  موجود ہیں

  انھیں محفوظ پناہ گاہیں ، افرادی قوت و مالی امداد

   پہنچاتے رہتے ہیں ۔

- منشیات و سمگلنگ، اغوا برائے تاوان  اور دشمن ایجنسیاں

  ان کی آمدنی کا سب سے بڑا  ذریعہ ہیں ۔ 

- قرآن و احادیث میں ان کی واضح نشانیاں موجود ہیں۔ ہر

  دور میں ان کی موجودگی ، ان کی بربریت و مخصوص

  مزاج و حلیے کا زکر موجود ہے۔ ( مفہوم) جب ان سے کہا

  جاتا ہے زمین پر فساد مت پھیلاؤ تو کہتے ہیں ہم تو

   اصلاح کرنے والے ہیں۔ ۔۔سورہ بقرہ

 

سب سے بڑا، مشکل و اہم سوال۔۔۔اگر یہ سب کچھ ہورہا ہے، ناک کے نیچے ہورہا ہے تو پھر حکومت و ادارے انھیں کچل کیوں نہیں دیتے ہیں۔ 

جواب ۔۔۔سکیورٹی اداروں نے پچھلے بیس سالہ جنگ میں ان دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے کئ ہزار آفیسرز و جوانوں کی قربانی دی ہیں۔ جس ملک میں آدھی ابادی انتہا پسند نظریات کی حامی ہوں بالخصوص ان جگہوں میں جہاں شورش و سرگرمیاں زیادہ ہیں، جہاں انھیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کئے جاتے  ہوں ، مالی، افرادی قوت  و نظریاتی امداد فراہم کئے جاتے ہوں ۔۔ سکیورٹی ادارے آخر کس کس کو پکڑ کر یا مارکر اتنی بڑی ابادی کو ختم کر سکتے ہیں ممکن نہیں ہے۔۔۔دنیا کی کوئی سپر فورس بھی یہ کام نہیں کرسکتی ہے، پاکستانی فورسز نے کم وسائل پر وہ جنگ جیت چکے تھے( البتہ مخصوص ملکی حالات جن کا مختصراً زکر کیا گیا ہے یہ لوٹ آئے ہیں) جو سپر پاور ہزار گناہ زیادہ خرچ کرنے کے بعد بھی افغانستان میں نہیں جیت سکا تھا۔اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے فورسز نے جب ان دہشت گردوں کو پکڑ کر قانونی کٹہرے میں پیش کیا تو بہتوں کو عدالتوں نے کلین چٹ دی اور ان کے سپورٹر وکلاء برادری دو انگلیوں کے  فتح کی نشان بناتے ہوئے چھڑا کر لے گئے اور بیچارے سکیورٹی والے دیکھتے رہ گئے۔  دہشت گردوں کا تعاقب کرتے ہوئے مشکوک  گھروں کی جب تلاشی لی جاتی ہے تو پی ٹی ایم کی غیرت جاگ جاتی ہے۔ پارلیمنٹ و پارلیمنٹ سے باہر ان کے حامی ان کے لیڈرز کے ذریعے اداروں کی تضحیک کرتے ہیں۔  کیا تمھیں نظر نہیں آتا ہے ۔۔دارلحکومت کے بالکل سنٹر میں واقع  لال مسجد میں ایک صاحب کھل کر دہشت گردی کو سپورٹ کر رہا ہے 2007 سے کر رہا ہے، آئین پاکستان کو للکارتا یے / نہیں مانتا ہے ، کسی نے اسے کٹہرے میں لانے کی کوشش کی؟ نہیں مگر سکیورٹی اداروں نے ایک کرنل سمیت آٹھ جوانوں کی شہادتیں دے کر کوشش کی تھی ، بہادر و نڈر لیڈر مشرف نے قدم اٹھایا تھا مگر  اسی کیس میں مشرف کو قصوروار ٹھہرایا گیا اور لال مسجد خطیب کو کھلی چھٹی۔۔ ، اس کے بعد سینکڑوں جوان ان کے دہشت گردوں کے ہاتھوں ذبح ہوئے  ، ہزاروں شہید و زندگی بھر کیلے اپاہیج ہوگئے۔ ملک کا انتہا پسند طبقہ خطیب لال مسجد کے ساتھ کھڑے ہوگئے ۔۔منور حسن ، اوریا مقبول جان و ہزاروں دیگر کی مثالیں موجود ہیں۔ 

المختصر میری دھرتی پر دہشت گردوں کا راج رہے گا، کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے جب تک پورے ملک میں ان کی نرسریاں موجود ہیں، ان کے نظریے کے لوگ پارلمنٹ سے لیکر یونیورسٹیوں ، صحافیوں ، تاجروں ، انصاف کے اداروں غرض ہر جگہ موجود ہیں۔ سلام و سلیوٹ بنگلہ دیش، عرب امارات، سعودی عرب و قطر جنھوں نے اس سفاکانہ نظریے سے جان چھڑا کر آگے بڑھ رہے ہیں اور ہم روز بروز اس آگ میں قوم کو دھکیل رہے ہیں۔ کتنی بدقسمتی و دکھ کی بات ہے 95 فیصد مسلمان ملک میں ہمشہ اسلام خطرے میں ہی رہتا ہے اور اسے بنیاد بناکر انتہا پسند نظریات کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔  اللہ اس ملک پر رحم فرمائے آمین ۔

 

نوٹ ۔ حالیہ پشاور مسجد حملے کی تحقیقات جاری ہے ۔ مجھے پورا یقین ہے سہولت کار خود پولیس کا بندہ ہی ہوگا۔ ابتدائی تحقیقات میں پتہ چلا ہے دہشت گرد مہمان بن کر آیا تھا ۔ اسلامی روایات میں مہمان رشتہ داروں و احباب کے گھر جاتے وقت کوئی تحفہ ، کھانے پینے کی چیز، جیسے عصر حاضر میں کیک وغیرہ ہاتھ میں لیکر جاتے ہیں۔۔۔مگر یہ عجیب مہمان تھا جو دس کلو تباہ کن بارود لیکر پہنچ گیا۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے  روز ہزاروں افراد آتے جاتے ہیں سب کی تلاشی لینا ممکن نہیں ۔ حل صرف ایک ہی عوام سدھر جائے ، خود کو اس فتنے سے دور رکھے، علماء منبر و محراب اور مدرسوں میں "اسلام دین امن" کی تبلیغ کریں  ۔ مدرسے ، کالج و یونیورسٹی کے طلباء کو ارتغل ہیروز کی بجائے  ابن سینا، خلدون ، رومی ، شمس تبریز، سلطان باھو،  رحمن بابا، قائد اعظم و اقبالیات پڑھانے کی ضرورت ہے۔

بشکریہ روزنامہ آج