180

میں ایک استاد کے ساتھ ہوں

    پہلی کہانی بارہ جنوری سے شروع ہوتی ہے جب قاسم علی شاہ سابق وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے لیے زمان پارک پہنچتے ہیں'یہ چند منٹ کی ملاقات انتہائی لائٹ موڈ میں ہوتی ہے۔قاسم علی شاہ چونکہ ایک معروف استاد اور کارپوریٹ ٹرینر ہیں'وہ عمران خان سے سوال پوچھتے ہیں کہ عظیم لیڈر کی خوبیاں کیا ہیں'خان صاحب ہمارے آخری نبی ۖ کا نام لیتے ہیں'اسی گپ شپ کے دوران قاسم علی شاہ ایک اہم سوال کرتے ہیں'کیا مجھے سیاست میں آنا چاہیے؟کیوں کہ میں ایک استاد ہوں اورگزشتہ بیس سال سے پاکستان کے کئی اہم اداروں کو اپنی خدمات پیش کر رہا ہوں'کیا پاکستان تحریک انصاف ایک استادکو 'اون' کرے گی؟یہ انتہائی بنیادی نوعیت کا سوال تھا کیوں کہ یہ سوال صرف قاسم علی شاہ کا نہیں تھا بلکہ اس معاشرے کا ہر اس فرد کا ہے جو عمران خان کی اُن تقاریر سے متاثر ہے جن میں خان صاحب موروثی سیاست کے خاتمے کا اعلان کرتے رہے'درجنوں ایسی تقاریر جن میں خان صاحب پرانے سیاسی چہروں اور جاگیرداروں سے نفرت کا اظہار کرتے رہے'لہٰذا قاسم علی شاہ کا یہ سوال'ایک عام آدمی کا سوال تھا،یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے نہ صرف اس سوال کا جواب انتہائی سنجیدگی سے دیا بلکہ قاسم علی شاہ کو سیاست میں خوش آمدید بھی کہا۔اس ملاقات سے اگلے روزقاسم علی شاہ وزیر اعظم شہباز شریف سے ملتے ہیں اور یہ ملاقات بھی کسی خاص ایجنڈے کا حصہ نہیں ہوتی۔
    دوسری کہانی ان دواہم ملاقاتوں کے بعد شروع ہوتی ہے جس میں قاسم علی شاہ'عمران خان کے بارے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں'ایک ٹاک شو میں جہاں انھوں نے عمران خان کی کئی خوبیوں پر بات کی'وہاں انھوں نے یہ بھی کہا کہ' عمران خان ایک ضدی آدمی ہیں'۔یہ وہ جملہ تھا جو قاسم علی شاہ کے گلے پڑ گیا اورتحریک انصاف کے سوشل میڈیا وِنگ نے ان کو ذلیل کرنا شروع کر دیا'ان کی میمز بنائی گئیں'ان کی تقاریر کے جملے جوڑ کر مذاق اڑایا گیا'ان کے لباس سے لے کر بچوں تک'سب کو تنقید کا نشانہ بنایا اور صورت حال یہاں تک پہنچ گئی کہ پاکستان کے سب سے بڑے کارپوریٹ ٹرینر'مقرر اور استاد کو اس جملے پر معذرت کرنا پڑی جو انھوں نے تنقید برائے اصلاح کہا تھا۔آپ ایمان داری سے بتائیں کہ یہ بات غلط تھی؟کیا ہم سب نہیںجانتے کہ عمران خان ضدی بھی ہیں اور متکبر بھی؟اس کے باوجود ہم عمران خان سے محبت کرتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں وہ اس ملک کی آخری امید ہیں'ہم اگر خان کی غلطیوں پر تنقید کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان سے نفرت کرتے ہیں بلکہ ہم سب چاہتے ہیں کہ ایک بڑے لیڈر کو اپنے اس رویے پر غور کرنا چاہیے'لیڈر کی سب سے بڑی کوالٹی فلیکسبلٹی ہے اور افسوس عمران خان میں اس کی شدید کمی ہے جس کے بارے انھیں انتہائی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔قاسم علی شاہ نے بھی خان کے اس رویے پر بات کی'وہ بعد میں بھی درجنوں ٹاک شوز میں کہ چکے کہ وہ عمران خان کو اپنا ہیرو مانتے ہیں'وہ واقعی ایک بڑے لیڈر ہیں مگر انھیں اس رویے پر غور کرنا چاہیے۔
    میںگزشتہ کئی روز سے سوچ رہا ہوں کہ یہ کیسا بے حس اور خود غرض معاشرہ ہے جس نے ایک ایسے فرد کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا جس نے اس ملک کے لیے بے تحاشا کام کیا'پاکستان کے تمام اہم اداروں اور جامعات کو اپنی خدمات پیش کیں'ہزاروں نوجوانوں کے مستقبل پر محنت کی'اپنی فائونڈیشن اور تقاریر کے ذریعے لاکھوں نوجوانوں کو تعلیم یافتہ بنایا'ان کے اندر اسکلز پیدا کیے'ان کے لیے ٹریننگ سیشنز رکھے تاکہ یہ سر اٹھا کر زندگی گزار سکیں مگر صد حیف جس ملک کے نوجوانوں سے وہ اتنی محبت کرتے ہیں'وہی نوجوان انھیں ذلیل کر رہے ہیں'ان کامذاق اڑا رہے ہیں'کیا عظیم قومیں اپنے استاد سے ایسا سلوک کرتی ہیں؟آپ قاسم علی شاہ سے لاکھ اختلاف کریں مگر آپ اس بات سے کیسے انکار کر سکتے ہیں کہ وہ واحد پاکستانی اسپیکر ہیں جن کی مداحوں کی تعداد لاکھوں میں ہے'وہ واحد استاد ہیں جن کے لیکچر ز کی ویور شپ ملینز میں ہے'قاسم علی شاہ واحد آدمی ہے جس نے اداروں جتنا کام کیا'جس نے ہمیشہ ایک مثبت پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا۔ایک ایسا آدمی جو جب چاہے کہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی شہریت لے سکتا ہے'اس کے باوجود وہ کہتا ہے کہ 'میرا جینا مرنا اپنے ملک کے لیے ہے'،ایسے آدمی کے ساتھ اتنا برا سلوک انتہائی افسوس ناک  اور قابلِ مذمت ہے۔
    اس ساری صورت حال کے بعد بھی قاسم علی شاہ کے قدم نہیں ڈگمگائے'وہ ڈٹ کے کھڑا ہے'وہ اب بھی کہ رہا ہے کہ عمران خان میرا ہیرو ہے مگر انھیں اپنے اس رویے پر غور کرنا چاہیے۔میرا قاسم علی شاہ سے انتہائی عقیدت اور محبت بھرا تعلق ہے'ان سے ہر ملاقات یادگار رہی'ان کے ساتھ بیٹھ کر ہمیشہ کچھ سیکھنے کا موقع ملا لہٰذا میں خوش قسمت ہوں کہ میرے دوستوں میں شاہ صاحب جیسے مخلص اور محب وطن موجود ہیں۔میں گزشتہ تین روز سے انتہائی کرب میں ہوں'میں بار بار سوچ رہا ہوں کہ جو قوم ایسے آدمی کو بھی نہیں بخش رہی جس نے اس ملک اور اس ملک کے اداروں کے لیے خود سے بڑھ کر کام کیا'جو کام ہماری سرکار کو کرنے چاہیے تھے'وہ اکیلے قاسم علی شاہ نے کیے'اس قوم کا کیا بنے گا'ایک استاد کے ساتھ اتنا منفی سلوک نہیں ہونا چاہیے تھا۔آپ نامور شخصیات سے ضرور اختلاف کریں مگر ان کے سارے کام کو نظر انداز کر دینا سراسر ذیادتی ہے۔اس قوم کا کیا بنے گا جس کا استاد اپنے ایک جملے پر قوم کو بار بار صفائی دے رہا ہے'بار بار معذرت کر رہا ہے'کتنے شرم ناک رویہ ہے ایک قوم کا ایک استاد کے ساتھ،خدارا !آپ سیاسی لیڈرز کو' پاک پوتر'مت سمجھیں'عمران خان،نواز شریف،شہباز شریف،ذرداری اور بلاول،یہ سب انسان ہیں'یہ بھی غلط ہو سکتے ہیں لہٰذا ہمیں اپنے لیڈرز کی خوبیوں اور خامیوں،دونوں کو اون کرنا چاہیے اور تعریف کے ساتھ تنقید کا دروازہ بھی کھلا رکھنا چاہیے،یہی انسانیت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

بشکریہ اردو کالمز