140

اولیسی پاسون، عوامی مزاحمتی قوتوں کی سرپرستی

جنوبی وزیرستان میں اولیسی پاسون کا سات روز سے جاری دھرنا ختم ہوا۔ حکام نے علاقہ میں امن قائم کرنے کے لیے دس مطالبات منظور کر لیے۔ اولیسی پاسون پشتو زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی عوامی بیداری کے ہیں۔

اس دھرنا کے شرکاء نے دس نکات پر مشتمل مطالبات پیش کیے تھے۔ ان مطالبات میں علاقہ سے مسلح جتھوں کا خاتمہ ، پولیس کو قانون کے تحت مکمل اختیارات ، ضرورت پڑنے پر فوج اور ایف سی کی طلبی ، انگور اڈہ پر تجارت میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ، پاکستانی شناختی کارڈ اور افغان باشندوں کو آمدورفت کی اجازت، مطلوب افراد کی گرفتاری کے لیے قانون کے تحت کارروائی، کالی شیشوں والی سرکاری و غیر سرکاری گاڑیوں کے خلاف کارروائی شامل تھی۔

حکام نے فوری طور پر تو ان مطالبات کو منظور کر لیا۔مذہبی دہشت گردی کے خلاف مزاحمتی تحریک صرف جنوبی وزیرستان تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر علاقوں میں بھی عوامی احتجاج ہو رہا ہے۔ پختون خواہ کے ایک اور پسماندہ علاقہ مالاکنڈ کے شہر باجوڑ جس کی کل آبادی 1,094 ملین (2017 کی مردم شماری کے مطابق) ہے بھی دہشت گردی سے متاثر ہے۔

باجوڑ سے آنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں اولیسی پاسون طالبان کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ ہفتہ ہزاروں افراد نے احتجاجی جلوس نکالا اور ایک بہت بڑا جلسہ ہوا۔

اس جلسہ میں قبائلی سردار، تاجر، سماجی کارکن اور نوجوان شریک تھے۔ مظاہرین نے سفید جھنڈے بلند کیے ہوئے تھے اور بڑھتی ہوتی دہشت گردی کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ ہزاروں افراد باجوڑ کے جناح بس ٹرمینل کے قریب دبئی مارکیٹ کے سامنے جمع ہوئے۔ باجوڑ کے باشعور افراد نے ایک امن ایکشن کمیٹی قائم کی ہے اور جماعت اسلامی باجوڑ کے امیر مولانا عبدالرشید اس امن ایکشن کمیٹی کے کنوینئر ہیں۔ امن کمیٹی میں جمعیت علماء اسلام ، پشتون موومنٹ ، عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں شامل ہیں۔

ان رہنماؤں نے اپنی تقریر میں اس بات کا عہد کیا کہ باجوڑ میں امن کی بحالی تک تحریک جاری رہے گی۔ ان رہنماؤں کا مدعا ہے کہ عدم تحفظ ، غیر یقینی صورتحال اور دہشت گردی کی وارداتوں سے علاقہ پسماندہ رہ گیا ہے۔

پختونخوا کے مختلف علاقوں میں شہریوں کے بھرپور احتجاج سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ وہاں کے لوگ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا ساتھ دینے کے لیے قطعی طور پر آمادہ نہیں اور وہ ان سے اپنی برات کا کھلم کھلا اعلان کر رہے ہیں ‘ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام جیسی مذہبی جماعتیں بھی دہشت گردوں کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ پختونخوا کی عوام اور مذہبی جماعتیں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے متشددانہ نظریات کے خلاف ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ دہشت گرد ان علاقوں میں اتنی قوت پکڑ جائیں کہ وہ وہاں پر اپنا متشددانہ نظام قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔دہشت گردوں کو ناکام بنانے کے لیے لازم ہو گیا ہے کہ عوام ‘ سیاسی جماعتیں اور مذہبی جماعتیں مشترکہ پلیٹ فارم سے حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کریں تاکہ حکومتی ایجنسیاں دہشتگردی کے خاتمے میں کامیاب ہو سکیں۔قبائلی علاقہ میں قدرتی معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں مگر دہشت گردی کی وارداتوں کی بناء پر ان قیمتی ذخائر کو زمین سے نکالنے کا کام شروع نہیں ہوسکا ہے۔

باجوڑ بھی ٹارگٹ کلنگ اور دھماکوں کا شکار ہے۔ ایک غیر ملکی ریڈیو کے لیے رپورٹنگ کرنے والے صحافی نے اعداد و شمار کے تجزیہ کے بعد بتایا کہ مذہبی انتہا پسندوں نے جمعیت علماء اسلام کے رہنماؤں اور کارکنوں کو سب سے زیادہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔

اغواء برائے تاوان اور بھتے کی پرچیاں عام سی بات بن گئی ہیں۔ رپورٹر کا کہنا ہے کہ جے یو آئی کے کارکنوں کو قتل کرنے کی ذمے داری داعش نامی تنظیم نے قبول کی ہے مگر اہم سوال یہ ہے کہ جے یو آئی کے رہنماؤں، کارکن، داعش اور طالبان کا فقہ ایک ہے مگر کیونکہ جے یو آئی پارلیمانی نظام پر یقین رکھتی ہے اس بناء پر دہشت گرد ان کو زیادہ نشانہ بنا رہے ہیں۔

بعض رپورٹروں کا تجزیہ ہے کہ طالبان دہشت گردوں کے حامی کچھ سرکاری اہلکار بھی اس میں ملوث ہیں۔ بہرحال مذہبی انتہا پسند گروہوں کی سرگرمیاں کیوں تیز ہوئیں، اس سوال کا جواب عمران خان کی سابقہ حکومت کی پالیسی سے منسلک ہے۔

عمران خان ہمیشہ سے طالبان کی تحریک سے ہمدردی رکھتے تھے۔ دوہا معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے طالبان کابل پر قابض ہوئے۔ سابقہ حکومت نے پاکستانی طالبان کے ساتھ جنگ بندی کی۔ پاکستانی طالبان کو منظم ہونے کا موقع ملا اور پاکستانی طالبان نے ہتھیار ڈالنے کے لیے جو مطالبات پیش کیے عمران خان حکومت ان پر عملدرآمد کے لیے تیار تھی۔

بتایا جاتا ہے کہ یکطرفہ طور پر پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے گئے اور مسلح گروہوں کو دوبارہ قبائلی علاقہ سوات وغیرہ میں ہتھیاروں کے ساتھ واپس آنے کے مواقع ملے۔ عمران حکومت کے میڈیا مینیجر نے ایک بیان میں اپنے رہنما کی شان میں قصیدہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان واحد رہنما ہیں جو افغانستان میں مقبول ہیں۔

انھوں نے موجودہ حکومت کی افغان پالیسی کی خامیوں کو بیان کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ تحریک طالبان پاکستان کے 5 ہزار جنگجوؤں کو دوبارہ ان کے آبائی علاقوں میں آباد کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ان کے اس تازہ بیانیہ سے تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں کا جواز ملتا ہے۔ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ صرف گزشتہ 50 دنوں  میں دہشت گردوں نے 100 کے قریب حملے کیے۔

ان حملوں میں فوج کے افسروں اور جوانوں کے علاوہ پولیس والے اور عام شہری بھی شہید ہوئے۔ افغان اور پاکستانی طالبان 129 سال قبل ایک انگریز Mortimer Durand کی کھچی ہوئی لکیر جوڈیورنڈ لائن کہلاتی ہے کو ماننے کو تیار نہیں مگر طالبان اپنی خلافت کی حدود کو پاکستان تک لانا چاہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سابقہ حکومت کی طرف سے طالبان کو کابل پر قبضہ میں مدد دینے کے باوجود وہ جنگ کر رہے ہیں۔ اسی تناظر میں کئی ماہرین کا خیال ہے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان دراصل ایک ہیں اور تحریک طالبان پاکستان سے جنگ بندی اور بات چیت ایک ایسا غلط فیصلہ تھا جس کی قیمت اب پاکستانی ادا کر رہے ہیں۔

طالبان دہشت گردوں کے خلاف سب سے پہلے عوامی مزاحمت جنوبی وزیرستان میں پختون قومی موومنٹ PTM نے شروع کی۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے ایک نئی افغان پالیسی کی ضرورت ہے۔ یہ پالیسی منتخب اراکین کو تیار کرنی چاہیے۔

اس پالیسی میں مزاحمتی تحریکوں کو بنیادی حیثیت دی جائے۔ ان دہشت گردوں کو ملنے والی کمک کو روکنے کے لیے جہاں انتظامی اقدامات ضروری ہیں وہاں عوامی مزاحمتی قوتوں کی حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے۔ اولیسی پاسون جیسی تحریکوں کی سرپرستی سے یہ جنگ جیتی جاسکتی ہے۔

بشکریہ ایکسپرس