135

اپنے غصے کو مارنا

جب ڈاکٹر فاروق خان کو شہید کردیاگیا تو ایک افغانی دوست نے ہمیں طعنہ دیا تھا کہ تم لوگوں میں ایک ہی ’’دیدہ ور‘‘ پیدا ہوا تھا اور تم لوگوں نے اسے بھی مار ڈالا۔ڈاکٹر فاروق خان پیشے کے لحاظ سے سائیکاٹرک تھے لیکن بہت بڑے اسکالر بھی تھے۔

وہ روزانہ تقریباً سو پچاس نفسیاتی مریضوں کاعلاج کرتے تھے اورآپ تو جانتے ہوں گے کہ اس وقت ہر دو لوگوں میں ایک تو یقیناً نفسیاتی مریض ہوتا ہے،پاکستانی دو میںسے دو ہوتے ہیں اور پشتون دو میں سے ’’تین‘‘ ہوتے ہیں کیوں کہ آس پاس کے لوگوں کو بھی ڈس ڈس کر اپنے جیسا کردیتے ہیں، اس مرض کو اصطلاح میں نرگسیت کہتے ہیں۔

اس کے علاوہ بھی ڈاکٹر فاروق بہت علمی کام کرتے تھے، شہادت سے کچھ عرصہ پہلے انھیں سوات کی اسلامی یونیورسٹی کا سربراہ نامزد کیاگیا تھا۔ مطلب یہ کہ جاننے والے جانتے تھے کہ ڈاکٹر فاروق خان ایک روشنی کا مینارہ اور قیمتی اثاثہ تھے۔

اس افغانی کا طعنہ ہمارے دل کو لگا اور بحیثیت پشتون کے، ہم اس تاک میں تھے کہ کسی طرح اس طعنے کا بدلہ طعنے سے چکا دیں، کیوں کہ پشتونوں میں ’’بہادری‘‘ کے علاوہ دوسرا عیب بدلہ چکانا اور انتقام لینا ہوتاہے ،پشتونوں کا وطیرہ ہے کہ پران جائیں پر بدلہ نہ رہ جائے۔

اس سلسلے میں بہت سارے اقوال بھی بنائے گئے ہیں مثلاً ایک شخص نے بیس سال بعد بدلہ لیا تو دوسرے نے کہا بہت جلد لیا، بدلے کا پتھر پانی میں نہیں پگھلتا وغیرہ ،وغیرہ۔ بلکہ ہمارا اپنا قول ہے کہ غلط کام غلط وقت پر غلط طریقے پر کرنا کوئی ہم پشتونوں سے سیکھے کہ یہ مسلمان بھی ہیں، پاکستانی بھی اور پشتون بھی، اس لیے نرگسیت کے ’’ٹربل‘‘ یا تیسرے درجے کے مریض ہوتے ہیں۔

ہم ڈاکٹر فاروق خان کے قدردان بھی تھے اور مریض بھی، کیوں کہ ہم الحمدللہ مسلمان بھی ہیں، پاکستانی بھی اور پشتون بھی۔ چنانچہ اس تاک میں تھے کہ کب موقع ملے اور ہم اس سے اپنا حساب برابرکریں اور وہ موقع ہمیں اس وقت ملا جب ایک افغانی نے ایک دانشور ڈاکٹر کی تفسیرکا ترجمہ کیا اور اسے افغانیوں نے کیفر کردار تک پہنچایا اگرچہ طعنہ کچھ ڈھیلا ڈھالا سا تھا لیکن ہمارے دل کے پھپھولے تو پھوٹ گئے ۔

وہ تیلی اور جاٹ کا لطیفہ تو آپ کو معلوم ہوگا جس کا جاٹ سے ٹاکرا ہوگیا تھا ،تیلی نے اسے کہا،جاٹ رے جاٹ تیرے سرپر کھاٹ۔ جواب میں جاٹ نے کہا۔ تیلی رے تیلی ۔تیرے سر پر کولہو۔ تیلی نے کہا قافیہ نہیں ملا تو جاٹ نے کہا۔ قافیہ ملے نہ ملے لیکن کولہوکے وزن سے تیرا کچومر تو نکل جائے گا نا۔چنانچہ اس افغانی نے بھی ہمارے طعنے کا جواب دیا کہ ہم کیا اور تم کیا۔

ایں ہمہ خانہ آفتاب است۔ سارے پاکستانی اورکچھ باقاعدگی سے کریں یا نہ کریں لیکن یہ کام بڑی باقاعدگی سے کرتے ہیں کہ کسی کو اپنے سے آگے نکلنے نہیں دیتے، چاہے وہ اس کا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ماہرین نفسیات نے قتل کو ایک نفسیانی مرض بتایا ہے۔

اس وقت دنیا میں دیکھیں تو یہی کچھ مسلمان کررہے ہیں، بجائے اس کے کہ کام کر کر کے علم ٹیکنالوجی اورایجادات اوردریافتیں کرکے ان سے آگے بڑھ جائیں۔روزنامہ بانگ حرم میں ہمارے ایک کاتب نے میٹرک کا پرائیوٹ امتحان دیا تھا ،وہ فیل ہو کر بہت اداس بیٹھا تھا بلکہ خشک آنکھوں سے تقریباً رو رہا تھا۔

کتابت بھی نہیں کر رہا تھا ،ہیڈ کاتب نے اسے چھٹی دی کہ گھر چلاجائے وہ نکل گیا لیکن تھوڑی دیر بعد مسکراتا ہوا واپس آیا، پوچھا کیوں بھئی پاس ہوگئے ہوکیا ؟ بولا نہیں ،میراچچا زاد بھائی بھی فیل ہوگیا ہے۔

ہمارے پڑوس میں ایک شخص کی دو بیویاں تھیں، اچانک ایک دن شور اٹھا کہ ایک سوتن نے دوسری کو زہر دیا، بعد میں پتہ چلا کہ زہر دینے والی کا بیان تھا کہ میں اس سے خوبصورت بھی ہوں، جوان بھی اور مالدار گھرانے سے بھی ہوں لیکن لوگ اسے باجی کہتے تھے اور مجھے بگڑے ہوئے نام سے نفرت ہے۔ ایک اور واقعہ تو بڑا جانکا ہے۔

دو چچازاد بھائیوں کے بیٹے پڑھتے تھے لیکن ایک کا بیٹا بہت لائق تھا اور ہرسال فسٹ آتا تھا جب کہ دوسرا ہر بار فیل ہوجاتا تھا، دونوں ہم عمرتھے، ایک ہی دن اسکول میں داخل ہوئے تھے لیکن ایک مسلسل پاس ہوکر آٹھویں تک پہنچ گیا تھا جب کہ دوسرا چوتھی میں رہ گیا تھا ۔

پھر ایک دن یہ المناک واقعہ پیش آیا کہ اس لائق لڑکے کو کسی نے قتل کر ڈالا تھا، ابتدامیں تو قاتل کا پتہ نہیں چلا لیکن تفتیش ہوئی تو پتہ چلا کہ اسے نالائق لڑکے کے باپ نے مارا تھا ۔داناؤں کاایک قول یہ بھی ہے کہ ایک آدمی سو لوگوں کو قتل کرڈالے گا لیکن اپنے غصے کو مارنا اس کے بس میں نہیںہوتا۔

بشکریہ ایکسپرس