سعادت حسن منٹو سے میرا پہلا تعارف میرے یونیورسٹی کے پروفسیر کے ذریعے ہوا۔۔۔ اس سے پہلے نا تو میں نے ان کا نام سنا تھا اور نا جناب کی تحریر کے متعلق مجھے کوئی علم تھا۔۔ پروفیسر صاحب نے بہت جوش سے ہاتھ کو ہوا میں معلق کرتے ہوئے کہا تھا معاشرے کا عکس پیش کرتا تھاوہ، وہ وہی لکھتا تھا جو دیکھتا تھا وہ اگر برہنہ عورت کو دیکھتا تو اسے کپٹرے پہننے کی ذرا بھی جستجو نا کرتا بلکل اس کے تمام عضو کو ویسے ہی تحریری شکل میں قلمند کر دیتا جیسے وہ ہوتی۔۔ بس پھر پروفیسر صاحب اپنے مضمون کی طرف واپس لوٹ آئے مگر میرا دماغ وہی برہنہ عورت کوہُو بَہُو لکھنے والے لفظ پر ہٹک کیا۔ اس وقت میں نے منٹو کو پڑھنا شروع کیا۔۔لیکن کچھ عرصے بعد سمجھ آئی کہ جناب منٹو کو پڑھنے سے کیا ہو گا اس سمجھنے کی بھی ضرورت ہے اب اگر کالی شلوار ،بلائوز، ٹھنڈا گوشت کو صرف بڑھا جائے تو تھوڑی سے نفس تک آگ کی تپش پہنچتی ہے مگر اگر سمجھا جائے تو اپنے کردار پر بھی خطائوں کے چھینٹے نظر آنے لگتیں ہیں۔18 جنوری 1955 کو منٹو اس دنیا سے چل دیئے فانی جہاں ہے ہر زی روح کو جانا ہے سو منٹو بھی چل دئے مگر منٹو کو پڑھتے پڑھتے مجھے احساس ہوا۔۔ یہ احساس ایک سوال کی شکل میں ہمارے داغ کے اندر قید سا ہو گیا اور مجھے ہر وقت ستایا کرتا کہ ہمارے ہاں ماضی میں اتنے اعلی پائے کے ادیب گزرے مگر کوئی بھی منٹو کی م تک بھی نا پہنچ سکا اور اگر حال کی بات کی جائے تو حال میں تو کسی میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ کوئ لکھ سکے کہ فلاح جگہ میں ایک عورت سے ملا وہ برہنہ حالت میں تھی اور مجھے اس کے جسم سے فوراً عشق ہو گیا سو میں نے اس رات اپنے نفس کا آگ اس کے جسم پر ٹھنڈی کی ۔۔ یا پھر کوئی یہ نا لکھ پائے گا کہ میں بظاہراً کافی اچھا ادیب معلوم ہوتا ہوں مگر میں شراب کے چار جام پی کر بھی ایک کالم، یا پھر کوئی افسانہ معاشرے کی اصلاح کے لیے لکھ سکتا ہوں۔۔ ایسا کیوں۔۔؟ اس سوال کا جواب مجھے اپنے پروفیسر کی بات سے ملا کہ منٹو معاشرے کا آئینہ تھا اور آج کے دورمیں کسی شخص میں اتنا ہمت نہیں کہ وہ معاشرے کا آئینہ بن سکیں جس میں ہم معاشرے کا عکس دیکھیں بلکے معاشرے کا کیا ان کا اپنا عکس بھی اس میں نظر نہیں آتا۔۔ میں سوچتا ہوں اگر آج منٹو زندہ ہوتے تو ان کو اتنی تکلیف نا ہوتی کہ دورکسی کھوٹے پر جا کر کوئی کہانی تلاش کرتے بلکہ انہیں اپنے محلے کی گلی میں ہی ہزاروں براہنہ کہانیاں مل جاتیں ۔۔ بلکل کالی شلوار کی طرح مگر شاید اب اس افسانے کا موضوع کے نام تبدیل ہوتے ۔کالی شلوار اب نیا سوٹ ، بلائوز کی جگہ ایک شرٹ اور آم کی جگہ مہنگی کار کے نام کے مضوع ہوتے۔۔ ہائے مگر اب منٹو کہاں جو نشے میں بھی سچ ہی لکھا کرتے اور لوگ اب ہوش میں ہو کر بھی سچ لکھنے کی ہمت نہیں کر پاتے۔۔آج کے دن جب منٹو اس دنیا سے رخصت ہو گئے میرے خیال میں منٹو نہیں معاشرے کا آئینہ چلے گئے۔ اب لوگوں نے اپنے اپنے آئینہ بنا لیے ہیں جہاں وہ خود کو خدا اور معاشرے کو گنگار تصور کر کے خوب لکھ بھی رہے ہیں اور بول بھی رہے ہیں۔پر منٹو کے افسانے آج بھی اس معاشرے میں وہی آئینہ کا کام کرتے ہیں ان کے افسانے میں، میں آج بھی ایک کوٹے پر جانے والے کوئی ببو بھائی ہوں جو روز کسی طوائف کے کھوٹے پر جا کر اس کے جسم کے ساتھ کھیل کر صبح جلدی سے غسل کر کےنماز کے لیے تیار ہو جاتا ہوں یا پھر آج بھی اسی عدالت کو صداق و آمین مانتا ہوں جہاں نا تو کبھی کوئی صادق آیا اور نا ہی آمین ۔۔ بس اتنا معلوم ہو سکا منٹو کے افسانے میں آج بھی جب میں اپنا عکس دیکھتا ہوں تو خود کو معاشرے میں ایک ایسا شخص تصور کرتا ہوں جہاں میرے کردار پر کئی داغ ہیں مگر چونکہ میں بھی اپنے ہی انا کے خول میں بند ہوں اس لیے جلدی سے منٹو کے آئینہ کو پرے کر کے اپنی انا کی سرپرستی میں تیار کیے ہوا آئینہ اپنے سامنے رکھتا ہوں جہاں میں ایک شریف النفس انسان ہوں اس لیے مجھے دوسرے لوگوں کی طرح آج بھی منٹو کے آئینہ سے نفرت ہے وہ بلکل وہی دیکھتا ہے جو میں ہوں ایسا کہاں ہوتا ہے بھلا
228