233

کیا ہم میجر اکرم شہید ( نشان حیدر) کو بھول گئے؟

سولہ دسمبر ایک اداس کر دینے والا دن ہے۔ اس دن وجود سے اتنے سوالات لپٹ جاتے ہیں کہ رو ح گھائل ہو جاتی ہے۔ ایسے ہی ڈھیر سارے سوالات میں سے ایک سوال ہلی کے شہید میجر محمد اکرم بھی ہیں۔یہ سوال پہلی بار وجود سے تب لپٹا جب بنگلہ دیش نے مطیع الرحمن کی قبر کشائی کر کے اس کی لاش بنگلہ دیش کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا اور ہم نے یہ مطالبہ منظور کر لیا۔ یہ 2006ء کی بات ہے جب میں نے چند سطریں لکھیں اور بنگلہ دیش میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن کو ای میل کر دیں۔2006ء سے 2022 آگیا ، میں ہر سال یہ سوال اٹھاتا ہوں لیکن جواب کوئی نہیں دیتا۔ جون 2006ء میں مطیع الرحمن کی قبر کشائی کر کے اس کی میت بنگلہ دیش کے حوالے کی گئی۔یہ وہی مطیع الرحمن ہے جس نے غداری کی اور راشد منہاس کا جہاز ہائی جیک کرکے بھارت لے جانے کی کوشش میں مارا گیا۔ راشد منہاس کو نشان حیدر دیا گیا۔ بنگلہ دیش حکومت اس کو بھولی نہیں۔ 35 سال کوشش کرتی رہی کہ اس کی لاش کراچی کے قبرستان سے نکال کر ڈھاکہ لے جائی جائے لیکن پاکستان نے بنگلہ دیش کی یہ درخواست قبول نہیں کی۔پھر ایک دن پاکستان نے یہ مطالبہ مان لیا۔ بنگلہ دیش سے ایک ٹیم کراچی پہنچی، مطیع الرحمن کی قبر کشائی ہوئی، اس کی لاش بنگلہ دیش کے پر چم میں لپیٹ کر ڈھاکہ پہنچا دی گئی۔ڈھاکہ میں اسے غیر معمولی پروٹوکول دیا گیا اور اس کی لاش کو میر پور کے علاقے میں دفن کر دیا گیا۔ تدفین کے بعد بنگلہ دیش نے سرکاری طور پر بتایا کہ مطیع الرحمن مکتی باہنی کا انسٹرکٹر بھی تھا اور بھارت سے ملا ہوا تھا۔ ان انکشافات کے مطابق اس کی خدمات دوران سروس جب وہ کراچی سے چھٹیوں پر مشرقی پاکستان گیا تو رائے پور کے علاقے رام نگر میں اس نے ایک کیمپ قائم کیا جہاں وہ مکتی باہنی کے مسلح نوجوانوں کی تربیت بھی کرتا رہا۔ سترہ سال پہلے جب یہ خبر پڑھی تو دکھ ہوا اور میں نے بنگلہ دیش میں پاکستانی ہائی کمیشن کو ای میل بھیجی اور چند سوالات پوچھے۔ آج پھر یہ سوالات یاد آ رہے ہیں۔میں نے لکھا کہ: میجر اکرم راجشاہی ڈویژن کے ضلع بوگرہ میں کہیں دفن ہیں۔ کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ میجر اکرم شہید کی قبر کس حال میں ہے؟ کیا ان کے یوم شہادت پر سفارت خانے کی طرف سے ان کی قبر پر چند پھول رکھے جاتے ہیں یا جناب سفیر محترم کو بھی علم نہیں کہ قبر کہاں ہے اور کس حال میں ہے؟ مجھے ان کی قبر کی کچھ تصاویر چاہئیں، کیا میں توقع رکھوں کہ سفارت خانہ مجھے میجر اکرم شہید نشان حیدر کی قبر کی چند تصاویر بھیج سکے؟ میں یہ بھی جاننا چاہوں گا کہ کیا میجر اکرم شہید نشان حیدر کی قبر وہاں ابھی موجود ہے یا مکتی باہنی نے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اس کے نشان مٹا دیے ہیں؟ بنگلہ دیش اپنے مطیع الرحمن کی لاش لے جا سکتا ہے تو کیا آپ میجر اکرم شہید نشان حیدر کے جسد خاکی کو پاکستان لانے کی کوئی کوشش نہیں کر سکتے؟ کیا کبھی بنگلہ دیش میں ہمارے سفارتی عملے کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ ہلی کے شہید میجر اکرم نشان حیدر کی قبر پر فاتحہ پڑھ آئیں؟ میں تسلسل کے ساتھ یہ سوال دہراتا آ رہا ہوں لیکن مجھے آج تک کسی نے اس سوالات کو جواب نہیں دیا۔ بنگلہ دیش میں ’البدر‘ کے شہداء کو ایک ایک کر کے دی جانے والی پھانسیاں دی گئیں اور ایک روز مطیع الرحمن صاحب کو شہید کر دیا گیا تو یہ تکلیف پھر سے جاگ اٹھی کہ بنگلہ دیش اپنے غداروں اور قاتلوں کو عزت دے رہا ہے اور ہم اپنے مظلوم اور بہادر سپاہیوں کو بھول گئے۔ وہ مکتی باہنی کے انسٹرکٹر مطیع الرحمن کی میت پینتیس سال بعد بھی لے جاتا ہے اور پورے اعزاز کے ساتھ دفناتا ہے اور ہم اپنے مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی پر نہ ڈھنگ کا احتجاج کر سکتے ہیں نہ بنگلہ دیش سے یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ پاکستان کا شہید تھا اس کی میت پاکستان کے حوالے کر دی جائے ہم اسے پورے اعزاز کے ساتھ دفن کرنا چاہتے ہیں۔ ہم جاننا چاہتے ہیں مگر ہم جیسے طالب علموں کو تو کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ ہمارے میجر اکرم شہید کی قبر کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔شہید کو واپس لانا اور پورے اعزاز کے ساتھ تدفین کرنا تو دور کی بات ہے ہمیں تو کوئی خبر نہیں جہاں شہید دفن ہوئے وہ مقام کس حال میں ہے۔قبر ہے بھی یا حسینہ واجد کی وحشتوں کی نذر ہو گئی یا اس سے پہلے ہی اس کے نشان مٹا دیے گئے؟ مشرقی پاکستا ن میں جو ہوا اس کے اسباب اور وجوہات پر طویل بحث ہو سکتی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے جوان جرأت اور استقامت سے لڑے۔وہ وہاں محصور ہو گئے تھے۔ یہاں سے ہم انہیں امداد بھیج سکے نہ خوراک نہ اسلحہ نہ ادویات۔ ہمارا فضائی رابطہ کٹ چکا تھا ہماری بحری ناکہ بندی ہو گئی تھی۔ اپنے ان محصور فوجیوں کو بچانے کے لیے بھی ہم نے کچھ نہ کیا لیکن شکست کا سارا ملبہ ہم نے انہی پر ڈال دیا ۔اور پھر انہیں یوں بھلا دیا جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں۔البدر بھی بھلا دی، بہاری کیمپ بھی یاد نہ رہے اور ہلی کا شہید بھی فراموش کر دیا گیا۔ ترکوں نے کوت العمارہ میں برطانیہ سے شکست کھائی۔ لیکن ترکوں نے یہاں شاندار مزاحمت کی تھی۔ چنانچہ کوت العمارہ کے نام سے ایک ڈرامہ سیریل تیار کیا گیا جو دل کوچھو لیتا ہے۔ قومیں اپنی تاریخ کو یوںزندہ رکھتی ہیں۔جیسے ترکوں نے کوت العمارہ میں اسے زندہ رکھا۔ بالعموم فتح پر فلمیں بنتی ہیں ، ترکوں نے شکست کے دوران بھی شجاعت کے رنگ دکھائے تویوں دکھائے کہ ششدر کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں ہمارے جن جوانوں نے جانیں قربان کیں ، جنہوں نے شجاعت کی مثالیں قائم کیں ہم ان کی یاد میں کوت العمارہ کی طرح کوئی ڈرامہ یا فلم کیوں نہ بنا سکے۔ہم نے تو ان سب کو یوں فراموش کر دیا کہ حیرت سے زیادہ دکھ ہوتا ہے اور دکھ سے زیادہ حیرت ہوتی ہے۔ وہ مائوں کے بیٹے تھے جو مشرقی پاکستان میں وطن پر قربان ہوئے۔ کیا اپنے عشاق سے کوئی ایسا بھی کرتا ہے جو ہم نے کیا؟ کیا اتنا بھی نہیں ہو سکتا کہ میجر اکرم شہید نشان حیدر کی ایک یادگار ہی اسلام آباد میںبنائی جاتی اور ایک علامتی اظہار کے طور پر وہاں مشرقی پاکستان کے سارے شہیدوں کے لیے دعا کی جاتی۔ کیا قیامت ہے کہ البدر کے بوڑھے آج بھی پاکستان کی محبت میں پھانسیوں پر جھول رہے ہیں مگر نہ معافی مانگ رہے ہیں نہ رحم کی درخواست کر رہے ہیں اور ہم ایسے بے نیاز ہو چکے کہ ہمارے لیے ان کی یاد میں بہانے کے لیے دو آنسو بھی نہیں۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز