185

ہم اور ہمارے تیسرے درجے کے خواب

جب مراکش کی ٹیم پرتگال کو ہرا کے عالمی فٹ بال کپ کی بانوے برس کی تاریخ میں سیمی فائنل میں پہنچنے والی پہلی عرب مسلم افریقی ٹیم قرار پائی تو اس ٹیم کے کھلاڑیوں کی گفتگو سے ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ کام کیسے ہو گیا۔

’’ ہمیں اپنی ذہنیت بدلنا ہو گی۔کمتری کا خیال دل سے نکالنا ہوگا۔یہ یقین کرنا ہو گا کہ مراکش کی ٹیم دنیا میں کسی کا بھی مقابلہ کر سکتی ہے۔ تب ہماری نسلیں بھی یقین کرنے لگیں گی کہ مراکشی بھی معجزے دکھا سکتے ہیں۔آیندہ جو بھی ہمارا مدِمقابل ہو گا اسے ہمیں ہرانے کے لیے بہت محنت کرنا ہو گی ‘‘ ( گول کیپر یاسین بونو )

’’ ٹورنامنٹ سے پہلے مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ ورلڈ کپ جیت سکتے ہیں ؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔کیا ہمیں خواب دیکھنے کی اجازت نہیں ؟ آپ خواب دیکھتے ہیں تب ہی تو ان کی تعبیر تک پہنچتے ہیں۔ ویسے بھی خواب بے دام ہیں۔کوئی بھی دیکھ سکتا ہے اور انھیں جیت سکتا ہے۔یورپی ٹیموں کو ورلڈ کپ جیتنے کی عادت ہو گئی ہے۔اب ہمیں بھی اس مقام تک پہنچنا ہے‘‘ ( مراکشی کوچ رگراگی )۔

کچھ نہیں معلوم کہ مراکش فائنل میں پہنچتا ہے کہ نہیں مگر کیا فرق پڑتا ہے۔مراکش ایک مثالیہ تو بن ہی گیا ہے ان تمام اقوام کے لیے جن کا یقین صدیوں پر پھیلے احساسِ کمتری نے چرا لیا۔جن کے جینز سے امنگوں کا ست نکال لیا گیا۔

جنھیں بہترین ماتحت کا خطاب دے دے کے ثانوی عظمت پر ہی قناعت کرنے کی عادت ڈال دی گئی ۔جن سے محض یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اچھے بچے بن کے رہیں۔خود ساختہ اعلیٰ نسلوں اور نام نہاد نجیب الطرفینوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی سعی میں عمریں اور نسلیں کھپا کے تعریف کے چند سکوں کے حصول کو ہی مکمل کامیابی جانیں اور یہ چند سکے اچھالنے والے کے پہلے سے زیادہ وفادار ثابت ہوں۔

مراکش کی جیت کا سب سے زیادہ جشن مراکش کے بعد غزہ اور مغربی کنارے پر منایا گیا۔ پورا افریقہ ناچ رہا ہے۔عرب پنجوں پر کھڑے ہیں۔ پاکستانی خوش ہیں۔کرد ہارن بجا رہے ہیں۔ان سب کا اس جیت سے بظاہر کیا تعلق ؟

مگر محرومیاں ، ٹھونسا گیا احساسِ کمتری ، نوآبادیاتی ذلت ، کچھ ثابت کرنے کی امنگ اور ’’ میں بھی تو ہوں ‘‘ ثابت کرنے کی وجودی خواہش تو سانجھی ہے۔یہی سانجھ پن تو خودساختہ بانجھ پن پر غالب آنے کی شعوری و لاشعوری جدوجہد کر رہا ہے اور یہی جدوجہد ’’ ہم نہیں تو ہمارا بھائی ہی صحیح ‘‘ کے مشترک احساس کو خوشی کی کٹھالی میں ڈھال کر چہرے تمتما رہی ہے۔

یہ ورلڈ کپ اٹھارہ دسمبر کو ختم ہو جائے گا۔ ٹیمیں اور شائقین گھروں کو لوٹ جائیں گے۔دنیا اپنے ڈھرے پر پھر واپس آ جائے گی۔مگر شاید نہیں۔ایسے ہر واقعہ کے بعد ڈھرا ایک سنٹی میٹر ضرور ادھر سے ادھر ہوتا ہے اور یوں تاریخ بھی کم ازکم ایک سنٹی میٹر اور آگے بڑھ جاتی ہے۔

اس ٹورنامنٹ نے سب سے زیادہ حوصلہ فلسطینیوں کو دیا ہے۔حالانکہ فلسطینی یا اسرائیل کی ٹیم اس ٹورنامنٹ کا حصہ نہیں تھی۔پھر بھی دونوں جانب کے شائقین قطر پہنچے۔حکومتیں جتنی بھی منافق ہوں مگر عام آدمی کم ہی اس منافقت کا حصہ بنتا ہے۔لہٰذا کئی کھلاڑیوں اور بہت سے مغربی شائقین نے فلسطینیوں کو درپیش مسائل پر کیمرے کے سامنے کھل کے بات کی۔

مراکش کے ایک کھلاڑی نے تو کوارٹر فائنل جیتنے کے بعد فلسطینی پرچم لپیٹ کر اسٹیڈیم میں دوڑ لگائی۔

متعدد اسرائیلی چینلز کی میڈیا ٹیمیں بھی میچوں کے کوریج کے لیے موجود ہیں۔مگر تقریباً ہر عرب شائق نے ان سے بات کرنے سے انکار کر دیا اور بہت سے مغربی باشندوں نے کیمرے کے سامنے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے یہ سوال بھی کیا کہ تم لوگ فلسطینیوں کی جان کب چھوڑو گے ؟ اس اعتبار سے یہ ٹورنامنٹ فلسطینی کاز کو عام کرنے کے لیے بھی خاصا سودمند رہا۔

اسٹیڈیم کے اندر اور آس پاس نشہ آور مشروبات پر پابندی تھی۔اس پر بعض مغربی ذرایع ابلاغ میں خاصی لے دے بھی ہوئی۔مگر اس پابندی کا فائدہ یہ ہوا کہ ہارنے والی ٹیموں کے شائقین نشے کی آڑ میں غل غپاڑہ اور توڑ پھوڑ کرنے کی سہولت سے محروم ہو گئے۔نعرے بازی کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی گروہ کرتا ضرور پایا گیا مگر لا اینڈ آرڈر کی مجموعی صورتِ حال قابو میں رہی اور اس کا اعتراف مغربی ذرایع ابلاغ کو بھی کرنا پڑا۔

بات شروع ہوئی تھی کہ مراکشی کوچ کے بقول خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔اور خواب ہی وہ ڈرائنگ بورڈ ہے جس پر تعبیر کی عمارت کا نقشہ بنتا ہے اور پھر احساسِ کمتری کو ایک جانب رکھ کے لگن اور محنت وہ دن دکھاتی ہے جسے ہم اپنی آسانی کے لیے معجزہ کہہ لیتے ہیں۔خود ہماری تاریخ بھی ایسے ’’ معجزوں ’’ سے عبارت ہے۔

یہ ملک بھی پلیٹ میں نہیں ملا تھا۔اس کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔لیکن پھر اس معجزے سے ذیلی معجزے پھوٹنے نہیں دیے گئے۔اجتماعی جوش و خروش سے پیدا ہونے والی انرجی ذاتی و طبقاتی مقاصد کے حصول کے لیے ٹھنڈی ہونے دی گئی۔

ورنہ سن چالیس اور پچاس کے عشرے کے اجتماعی جوش اور حوصلے کو مشترکہ ترقی کی ٹرین کا انجن بھی بنایا جا سکتا تھا۔

یہ خواب سے جنم لینے والی لگن ہی تو تھی کہ ملک کی پیدائش کے صرف پندرہ برس بعد پی آئی اے کا شمار دنیا کی دس بہترین ایرلائنز میں ہونے لگا۔کھیلوں کے میدان میں جب وسائل کے پر لگا کے خوابوں کو پرواز کے لیے کھلا آسمان مہیا ہوا تو دیکھ لیجیے پاکستان نے برس ہا برس ہاکی ، اسکواش اور کرکٹ میں کیسے کیسے جھنڈے گاڑے اور بیک وقت کتنے تاج سر پے رکھے۔

یہ جو قطر سمیت مختلف خلیجی ریاستوں میں لاکھوں پاکستانی ریگستان میں عمارتیں اٹھا رہے ہیں۔یہ بھی تو کچھ خواب لے کر ہی ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔مغربی ممالک کی کلیدی کمپنیوں میں جو ہزاروں پاکستانی اچھے عہدوں پر پہنچے ان کے خوابوں کو اگر گورنننس کا ڈھانچہ مقامی سطح پر کشید کرنے کے قابل ہوتا تو کاہے کو اپنا گھر چھوڑتے۔

ہمارے پاس آج اس کے سوا فخر کرنے کو بچا کیا ہے کہ جنوبی کوریا اور تائیوان اور سنگاپور کی فی کس آمدنی انیس سو ساٹھ کے عشرے میں پاکستان سے کم تھی اور سو سے زائد ممالک میں پاکستانیوں کی ویزا فری انٹری تھی۔اور ٹائم میگزین کے ٹائٹل پیج پر پاکستان کا نقشہ چھپا تھا جس میں یہ پیش گوئی تھی کہ یہ ملک اگلے بیس برس میں ایک ٹھوس ایشیائی معاشی طاقت ہو گی۔مگر یہ انیس سو پینسٹھ کی جنگ سے پہلے کی بات ہے۔

کیا ہوا پھر۔وہی لوگ ہیں ، وہی زمین ہے۔ ہاں نیت میں کھوٹ آ گیا۔ اس قیمتی پلاٹ پر اپنا گھر بنانے کے بجائے پارکنگ لاٹ میں بدل دیا گیا اور اس پارکنگ لاٹ سے آنے والا کرایہ اوپر ہی اوپر بٹتا چلا گیا۔یوں عام آدمی نے اپنا اعتبار سستے داموں بیچ ڈالا۔اب نہ خواب گر ہیں نہ تعبیر ساز۔البتہ ہر جانب خواب فروش گھوم رہے ہیں مگر ان کے پاس بھی بیچنے کو تیسرے درجے کے ہی خواب ہیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

بشکریہ ایکسپرس