92

میری کہانی، میری زبانی (تیسرا حصہ)

مدرسہ کی تعلیم کے اختتام ہونے کے بعد مسئلہ یہ تھا کہ پڑھائی کا سلسلہ آگے کس طرح جاری رکھا جائے۔ میری خوش بختی تھی کہ اُسی زمانہ میں ایک پرائیویٹ اسکول کھل گیا جس کے بانی ایک بڑے ہندی سادھو تھے جن کا نام سوامی کلیان دیو جی تھا چناچہ اسکول کا نام کلیان کاری ہائی اسکول رکھا گیا۔

اب ایک اور دشواری آڑے آگئی کیونکہ اسکول ساتویں جماعت سے شروع ہوکر میٹرک تک تھا، اسکول میں داخلہ کے لیے ٹیسٹ لازمی تھا۔

ماموں جان نے طے کیا کہ کوشش تو کی جائے بظاہر یہ کام بہت دشوار تھا، لیکن ماموں جان کو پورا یقین تھا کہ میں ٹیسٹ پاس کرلوں گا جس کی وجہ یہ تھی کہ اُنھوں نے مجھے انگریزی اور ریاضی کے مضامین میں خوب پکا کردیا تھا۔

قصہ مختصر ماموں جان نے اللہ کا نام لے کر ہمیں ٹیسٹ دلانے کے لیے ایک روز اسکول جا پہنچے۔ وہاں جا کر یہ معلوم ہوا انگریزی اور ریاضی کے علاوہ ہندی کا ٹیسٹ بھی ہوگا جو کہ لازمی ہے۔ یہ سنتے ہی ماموں جان کا رنگ فق پڑ گیا اور اُن کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کیونکہ ہندی تو ہم نے پڑھی ہی نہیں تھی۔

سوال یہ تھا کہ اب کیا کیا جائے؟ ہم نے ماموں جان سے کہا کہ آپ اِس کی فکر نہ کریں دیکھا جائے گا۔ آپ ہمیں چھوڑ کر چلے جائیے اور ٹیسٹ ختم ہونے کے بعد ہمیں گھر لے جائیے۔ ماموں جان چلے گئے۔ ٹیسٹ ختم ہونے کا انتظار کرکے کچھ دیر بعد ہمیں لینے کے لیے واپس آگئے۔

اُن کے چہرے پر پریشانی اور اضطراب کے آثار نمایاں تھے۔اُنہیں یہ جان کر بے انتہا حیرت ہوئی کہ ہندی میں ہم نہ صرف پاس ہوگئے تھے بلکہ ہمارے نمبر بہت زیادہ تھے۔ گھر جاکر یہ عقدہ کھلا کہ ہم نے چوری چھپے ایک لڑکے سے ہندی سیکھ لی تھی اور کتابیں پڑھ پڑھ کر غیر معمولی اہلیت حاصل کرلی تھی جو آگے چل کر ہمارے بہت کام آئی۔

اسکول میں داخلہ ہونے کے بعد ہم نے سوریا پرکاش شاستری جی سے سنسکرت سیکھی۔ ہمارے علاوہ سنسکرت کی کلاس میں دو اور لڑکیاں بھی شامل تھیں جن میں سے ایک کا نام شکنتلا اور دوسری کا نام شاردا تھا۔  شاستری جی ہم سے بہت خوش تھے کیونکہ ہمارے نمبر ہمیشہ پورے آتے تھے۔سنسکرت سیکھنے کا ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ دیگر طالب علموں کے مقابلہ میں ہمارے ہندی بھی بہت بہتر ہوگئی اور اُس میں بھی ہندو لڑکوں کے مقابلہ میں ہم بہت زیادہ کامیاب تھے۔

جاڑے کے موسم میں ہمارے قصبہ میں راتوں کو بڑی چہل پہل اور رونق ہوتی تھی کیونکہ کولہُو چلا کرتے تھے جہاں گنے کے رس سے گڑ تیار کیا جاتا تھا۔کولہو سے نکلے ہوئے گنے کے رس کو بڑے بڑے کڑاہوں میں اُبال کر گاڑھا ہوجانے کے بعد ایک بہت بڑے مٹی کے بنے ہوئے تھال پر پھیلا کر لوہے کے کھَپچوں سے پھینٹا جاتا تھا جس کے بعد سخت ہوکر گڑ بن جاتا تھا جس کا ایک مختص سائز ہوتا تھا جسے بھیلی کہا جاتا تھا۔

گڑ کی تیاری کے اِس مرحلہ میں لڑکے بالے اور بزرگ اکٹھے ہو کر الاؤ کے گرد بیٹھ کر خود کو سردی کی ٹھنڈ سے بچاتے تھے۔ گانے گا گا کر اور گپ شپ کے ذریعہ خوب لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ بڑے ماموں سید نفیس حسن جو حافظ قرآن تھے اِس محفل کی جان اور وی آئی پی ہوا کرتے تھے۔ لحن داؤدی کی یاد تازہ کرکے قرآن مجید کی تلاوت سے سب کے دل گرماتے تھے۔

بگھرے کا بازار گنتی کی چند دکانوں پر مشتمل تھا جس میں مولوی کالے صاحب کی عطار کی دکان بھی شامل تھی۔ مولوی صاحب مسجد کے پیش امام ہونے کے علاوہ حکیم بھی تھے۔صاحبِ موصوف نہایت نرم خو اور خوش الہان تھے۔

قصبہ میں ہر بدھ کو پیَنٹھ لگا کرتی تھی جس میں مختلف اشیاء فروخت کرنے والے اپنا اپنا مال لا کر فروخت کیا کرتے تھے جس میں پھل، سبزیاں اور ضرورت کی چیزیں شامل تھیں۔اِس پَینٹھ کو ہم لوگ آج کی زبان میں اتوار بازار، منگل بازار یا جمعہ بازار کہتے ہیں۔دانتوں کا منجن، آنکھوں کااَنجن(سُرمہ) بیچنے والے مجمع لگا لگا کر بدھ بازار کی رونق بڑھاتے تھے۔

قصبہ میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ رات کے وقت مٹی کے تیل سے بھرا ہوا چراغ جلایا کرتے تھے جسے ڈبیہ کہا جاتا تھا اور جس اسٹینڈ پر اِسے روشن کرکے رکھا جاتا تھا اُسے دیوَٹ کہا جاتا تھا۔ یہ دیوَٹ لکڑی سے بنا ہوا ہوتا تھا۔ہماری پڑھائی رات کے وقت اِسی چراغ کی روشنی میں ہوتی تھی۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ یہ چراغ ہوا کے تیز جھونکے سے اچانک بُجھ جاتا تھا اور پھر سے ماچس کی تیلی جلا کر دوبارہ روشن کیا جاتا تھا۔

برسات کے دنوں میں بڑی دقت پیش آتی تھی کیونکہ تیز ہوا کے جھونکے اِس چراغ کو بار بار بُجھاتے تھے، بعض صاحب حیثیت لوگوں کے ہاں مٹی کے تیل سے روشن ہونے والی لال ٹینیں ہوتی تھیں جن میں بتی کو ہوا سے بُجھنے سے بچانے کے لیے شیشہ کی چمنیاں فٹ ہوتی تھیں۔

برسات کا موسم بہت خوشگوار ہونے کے علاوہ بڑا مشکل بھی ہوا کرتا تھا کیونکہ اکثر و بیشتر بارش کا سلسلہ ہفتہ بھر اور کبھی کبھار دو تین ہفتوں تک جاری رہتا تھا کیونکہ اِس سے ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ پھیلی ہوئی ہوتی تھی جس میں چلنے کی وجہ سے پاؤں دھنستے تھے اور ضروریاتِ زندگی کا لانا انتہائی دشوار ہوتا تھا کیونکہ دکانیں اکثر بند رہتی تھیں۔ اِس کی وجہ سے روٹیوں کے لالے بھی پڑ جاتے تھے۔

سب سے بڑا عذاب یہ تھا کہ قصبہ کے اکثر مکان جو مٹی کے بنے ہوئے ہوتے تھے بارش کی وجہ سے ڈھے جاتے تھے جس سے بھاری جانی و مالی نقصان ہوتا تھا۔قصبہ کے اطراف جوہڑ تھے جو برسات کے دنوں میں پانی سے بھر جاتے تھے جس کے نتیجہ میں لوگوں کا آنا جانا بہت مشکل ہوجاتا تھا اور بھینسوں کے لیے یہ موسم نہایت سازگار ہوتا تھا جو پانی میں گھسنے کے بعد وہیں کی ہو کے رہ جاتی تھیں اِسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ گئی بھینس پانی میں۔

موسمِ برسات میں ایک خاص مٹھائی تیار ہوتی تھی جو لوہے کی چھلنی کی شکل کی ہوتی تھی اور اُس میں سوراخ سوراخ ہوتے تھے جس کا ذائقہ میسو سے ملتا جلتا ہوتا تھا۔ اِس کا نام تھا گھیور۔ کھانے والے اِسے بڑے مزے لے لے کر کھاتے تھے اور کہتے جاتے تھے: گھیور برسات کا زیور   (جاری ہے )

بشکریہ ایکسپرس