195

گئے تو کیا تری بزمِ خیال سے بھی گئے

جسے دنیا کی بے ثباتی پر یقین نہیں وہ ایک دفعہ افواجِ پاکستان کے سربراہ کی تبدیلی کی رنگا رنگ اور کروفر والی پُر ہیبت تقریب کو غور سے دیکھ لے۔ تقریب دیکھتے ہوئے قرآن پاک کی یہ آیت مسلسل میرے ذہن میں گونجتی رہی۔ ’’واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ سروسامان بھی اس زمین پر ہے اسے ہم نے زمین کی زینت و رونق بنایا تاکہ ہم ان لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں بہتر عمل کون کرتا ہے‘‘ (الکہف: 7)۔ اگر یہ کائنات اتنی پرکشش نہ ہوتی، حسین و دلربا نہ ہوتی تو کون تھا جو اس میں دل لگاتا۔ ہر کوئی اس سے نکل جانے، اسے چھوڑ جانے کی آرزو میں بے چین رہتا۔ پاکستانی فوج شاید دنیا کی واحد فوج ہے جس میں سربراہ کی تبدیلی کی تقریب اس قدر پر رونق، بارُعب اور ہیبت و جلال کی تصویر ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں اب صرف تاجِ برطانیہ کے وارث کی تبدیلی کی تقریب ہی ایسی رہ گئی ہے جس میں ابھی تک قدیم نوآبادیاتی طاقت کا جلال زندہ رکھنے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے۔ وہ تختِ برطانیہ جس پر جب ملکہ وکٹوریہ سریر آراء ہوئی تو اس کے ایسے مجسمے بنا کر تمام نوآبادیوں میں لگائے گئے جن میں ملکہ ایک تخت پر کوہِ نور ہیرے والا تاج پہنے بیٹھی ہے اور اس کے ایک ہاتھ میں دنیا کا گلوب ہے اور دوسرے ہاتھ میں اقتدار کا ڈنڈا ہے۔ ایسا ایک مجسمہ ابھی بھی لاہور کے عجائب گھر میں موجود ہے۔ وہ سلطنت جس پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا اب سمٹ کر صرف دو لاکھ نو ہزار تین سو اکتیس مربع کلومیٹر کے جزیرے تک آ چکی، مگر بادشاہت کی تبدیلی کی تقریب کا کروفر اور جاہ و جلال ابھی تک ویسا ہی ہے۔ 1857ء کے بعد مغل شاہزادوں اور شہزادیوں کی کسمپرسی کے جو قصے خواجہ حسن نظامی نے تحریر کئے ہیں، وہ جہاں اقتدار والوں کیلئے مقامِ عبرت ہیں، وہیں ہر شہزادے اور شاہزادی کی غربت و افلاس والی زندگی میں بھی خواجہ صاحب نے اُجڑے ہوئے اقتدار اور کھوئے ہوئے شاہی محل کی زندگی کی جھلک دکھانے کی کوشش کی ہے۔ فاقہ زدہ زندگی میں بھی دست ِ سوال دراز نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی جانب بڑھتی ہوئی موت کو گلے لگا لیتے تھے۔ دنیا کے نقشے پر صرف ایک سو سال پہلے تک چار بڑی نوآبادیاتی قوتیں تھیں، برطانیہ، فرانس، ہالینڈ اور پرتگال۔ ان چاروں کے زیرِ تسلّط تقریباً پوری دنیا تھی۔ آج یہ تمام قوتیں سب اپنے اپنے علاقوں میں واپس سمٹ چکی ہیں۔ ہالینڈ اور پرتگال تو ایسے سمٹے کہ اقوام متحدہ کی راہداریوں میں اس وقت دو سو عام ممالک کی قطار میں کھڑے ہوئے ہیں۔ فرانس نے بادشاہت نما اقتدار کی آخری ہچکی نپولین کے دور میں لی اور 1815ء میں اس کی شکست کے بعد وہ ایک جمہوری نوآبادیاتی قوت بن گیا۔ اس قوت نے امریکہ کی جنگِ آزادی میں جارج واشنگٹن اور اس کے ساتھیوں کو مدد فراہم کی، جس کے انعام میں آج اس کا اقوام متحدہ کی پانچ مستقل بڑی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے۔ سپین ان چاروں قوتوں سے بہت پہلے دنیا پر حکومت کرنے کے بعد اپنی کچھار میں واپس لوٹ چکا تھا۔ ان سب طاقتوں میں سے ابھی تک مصنوعی کروفر اور روایتی آن بان صرف برطانیہ کے شاہی خاندان میں باقی ہے۔ مصر کے سبکدوش ہونیوالے بادشاہ شاہ فاروق نے کہا تھا کہ دنیا میں صرف پانچ بادشاہ رہ جائینگے، چار تاش کے بادشاہ اور ایک برطانیہ کا بادشاہ۔ لیکن شاید وہ یہ کہنا بھول گیا تھا کہ اس بادشاہ کی بھی صرف ظاہری وجاہت رہ جائے گی جسے پنجابی زبان میں ’’پھوں پھاں‘‘ کہتے ہیں، جب کہ وہ اصل میں خوبصورت محل کا ایک مرصع قیدی ہی ہو گا۔ ورنہ کہاں برطانیہ کا بادشاہ چارلس اوّل کہ جب چاہتا اسمبلیاں برطرف کر دیتا، جس کو چاہتا وزیر اعظم بنوا دیتا اور جس سے چاہتا اس سے اختیارات چھین لیتا۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ عوام کے ہجوم نے اسے گرفتار کر لیا۔ موت سے پہلے اسے تین دن دیئے گئے کہ وہ اپنے پیاروں سے مل سکے اور اپنے معاملات درست کر سکے۔ وہ اپنے وائٹ ہال پیلس کے کمرے کے باہر کرسی ڈال کر بیٹھا رہتا، اس نے سوائے اپنے بچوں کے کسی اور سے ملنے سے انکار کر دیا۔ آخری دن اس نے کاغذات جلانے، عبادت کرنے اور دو چھوٹے بچوں ہنری اور ایلزبتھ کو گلے مل کر رونے میں گزارا۔ 30 جنوری 1649ء کو سخت سردی میں اسے شاہی ملبوس پہنا کر مقتل گاہ تک لایا گیا۔ شدید سخت موسم میں بھی لاتعداد لوگ وہاں موجود تھے جن کے درمیان ایک شخص تیز دھار کلہاڑا لئے کھڑا تھا۔ اس کیساتھ دوسرا شخص ایک پتھر کے پلیٹ فارم کے پاس موجود تھا۔ دونوں نے نقاب پہنے ہوئے تھے۔ بادشاہ چارلس اوّل کو لایا گیا، اس کے بالوں کو ایک جالی دار نقاب میں باندھا گیا، ساتھ کھڑے شخص نے اس کا شاہی جبّہ اُتارا اور اس کو اس پلیٹ فارم پر سر کے بَل لٹا دیا۔ چشمِ زدن میں کلہاڑا چلا اور بادشاہ کا سر تن سے جدا ہو گیا۔ یہ آخری بادشاہ تھا جو اپنی قوم پر قوت و جبروت سے حکومت کرتا رہا۔ اس کے بعد آنے والے سب کے سب ایک شاندار تقریب میں تاج پہنتے، اقتدار کا ڈنڈا ہاتھ میں پکڑتے اور ان کے نام کا سکّہ جاری ہو جاتا۔ باقی سب اختیار آہستہ آہستہ دارلامراء اور دارالعلوم کو منتقل ہو گیا۔ اس وقت دنیا میں تقریباً دو سو آزاد ریاستیں ہیں جن میں سے کم از کم پچیس ایسی ہیں جو مضبوط فوجی قوت رکھتی ہیں۔ نو ایٹمی طاقتیں ہیں جن کے پاس شاندار فضائیہ، بحری اور بری افواج ہیں۔ لیکن جس کروفر اور جاہ و جلال سے اقتدار کی منتقلی کی تقریب پاکستان میں منعقد ہوتی ہے کسی اور ملک میں نہیں ہوتی۔ تقریبات منعقد کرنے میں ہم اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ مجھے کم از کم تین بڑے ممالک کے سفیروں نے بتایا کہ پاکستان میں جس شاہانہ انداز میں کسی غیر ملکی سفیر کے کاغذاتِ نامزدگی پیش کرنے کی تقریب منعقد ہوتی ہے، دنیا کے بیشتر سفیر، پاکستان میں اپنی تعیناتی کی خواہش کرتے ہیں تاکہ ایک دفعہ اس لذت سے لطف اندوز ہو سکیں۔ چیف آف آرمی سٹاف کی تبدیلی کی تقریب عین ممکن ہے ہمیشہ ایسے ہی منعقد ہوتی ہو گی، لیکن عوام کی نظروں سے اوجھل رہی۔ جس طرح گذشتہ دو تقاریب براہِ راست تمام ٹیلی ویژن چینلوں پر دکھائی گئی ہیں اس پر واقعی کسی پُر ہیبت اقتدار کی منتقلی کا گمان ہوتا ہے۔ تقریب کو عوام کو دکھانے کا مقصد یقیناً یہ ہو سکتا ہے کہ قوم کو افواجِ پاکستان کے ڈسپلن اور اس کی روایت سے آگاہ کیا جائے۔ لیکن اس پوری تقریب کے دوران میں صرف یہی سوچتا رہا کہ یہ شاندار تقریب کس طرح اس دنیا کی بے ثباتی کی واضح مثال ہے۔ اس دنیا کے بارے میں سب سے خوبصورت اور لازوال تبصرہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، آپ نے فرمایا: ’’یہ دنیا ’’عابر السبیل‘‘ یعنی ٹرانزٹ لائونج یا ’’عارضی پڑائو‘‘ ہے۔ آدمی عالمِ بالا کی دنیا سے آتا ہے، یہاں کچھ دن پڑائو کرتا ہے اور اپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہو جاتا ہے۔ اللہ نے اگر یہ دنیا خوبصورت، با رونق اور دلربا نہ بنائی ہوتی تو اسے چھوڑنے پر کبھی کوئی شخص ماتم کناں نہ ہوتا۔ پوری تقریب کے دوران میں سوچ رہا تھا کہ تھوڑی ہی دیر کے بعد یہاں پر موجود چاک و چوبند دستوں والوں اور کلف زدہ وردیوں والوں کیلئے ایک شخص بالکل اجنبی (irrelevant) ہو جائے گا۔ وہ جیتا جاگتا انسان ہو گا، مگر وہ اس مقتدر سپاہ کے لئے رخصت ہو چکا ہو گا۔ سول سروسز اکیڈیمی میں ہمارے ڈائریکٹر ریٹائرڈ بریگیڈیئر ظفر مسعود تھے۔ ان کے ساتھ جب بھی سفر کا موقع ملا وہ آرمی ریسٹ ہائوس میں نہیں ٹھہرتے تھے۔ پوچھا کیوں، کہنے لگے جب میں تعارف کرواتا ہوں ’’بریگیڈیئر ظفر‘‘ تو سیلوٹ کرنے والا شخص پوچھتا ہے سر ’’حاضر سروس‘‘ یا ’’ریٹائرڈ‘‘ پھر میں اس کا جواب نہیں دے پاتا کیونکہ جواب میں نے اس کے چہرے پر پڑھ لیا ہوتا ہے۔ عزیز حامد مدنی یاد آ گئے: وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے گئے تو کیا تری بزمِ خیال سے بھی گئے

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز