117

کوٹہ سسٹم اور میرٹ کا قتل ِ عام

آچاریہ جے۔ بی کرپلانی انتہائی متعصب کٹر ہندو سیاسی رہنما تھا۔ اُس کا تعلق سندھ سے تھا جہاں چند زمینداروں اور وڈیروں کا مذہب اسلام تھا۔ قیامِ پاکستان سے پہلے سندھ کے ہمارے مسلمان بھائیوں کی غالب اکثریت کی معاشی حالت زیادہ بہتر نہ تھی جس کی وجہ سے وہ ہندو اکثریت سے مغلوب تھی۔ زیادہ تر کاروبار ہندو تاجروں کے ہاتھوں میں تھا اور مسلمان بیچارے اُن کے خدمت گزار اور تابعدار تھے۔ تعلیم یافتہ لوگوں میں بھی غالب اکثریت ہندوؤں کی تھی اور بڑے بڑے عہدوں پر بھی انھیں کی اجارہ داری تھی۔ قیامِ پاکستان یہاں کے مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑا انعام تھا ،گویا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ ترقی کی دوڑ میں اِس خطہ کے مسلمان بھائی بہت پیچھے تھے۔ ہندوؤں کے بعد دوسرا نمبر پارسیوں کا تھا جو نہایت خوشحال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ترکِ وطن کر کے سندھ سے جاتے ہوئے آچاریہ کرپلانی نے یہ بدگوئی کی تھی کہ ’’ فکر نہ کریں پاکستان بن تو گیا لیکن یہ ملک چند ماہ سے زیادہ نہیں چل سکے گا۔‘‘ بظاہر یہ بات بہت بری اور اخلاق سے گری ہوئی تھی لیکن ذرا غور کیجیے تو سمجھ میں آتا ہے کہ کرپلانی نے جوکچھ کہا تھا وہ یہاں کی مسلم کمیونٹی کی حالتِ زار کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہا تھا۔ اُس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ سرحد پار سے جنات کا ایک لشکر آئے گا جو مسلم مملکت پاکستان کا نظم و نسق سنبھال لے گا اور اِس کی کایا پلٹ کر رکھ دے گا۔ امرِ واقعہ بھی یہی ہے کہ سرحد پار سے آنے والوں نے آ کر ریل گاڑیاں بھی چلا دیں، ہوائی جہاز بھی اُڑا دیے اور بینکاری وغیرہ کو بھی چار چاند لگا دیے اور یہ سارا کام دیکھتے ہی دیکھتے انجام دے دیا جب کہ بے سر و سامانی کا عالم یہ تھا کہ دفاتر میں کاغذات کو نَتھی کرنے کے لیے پیپر پِن بھی میسر نہ تھی اور یہ کام بَبُول کے کانٹوں سے لیا گیا۔ ایک جوش و جذبہ اور ولولہ تھا اور پاکستان سے محبت اور وفاداری نے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ اِس صورتحال کے حوالے سے یہ شعر یاد آرہا ہے۔ ہوا سے اتنی محبت کہ ہم نے بے سوچے گھروں سے رکھ دیے لا کر چراغ صحرا میں اِن لُٹے پِٹے لوگوں نے پاکستان کے لیے تَن مَن دَھن سے روز و شب کام کر کے اِسے کیا سے کیا بنا دیا۔ اِنہوں نے ویرانوں کو آباد کرنے کے لیے نئی نئی بستیاں بسائیں اور مصورِ پاکستان علامہ اقبالؔ کی اِس پیشگوئی کو صد فیصد درست ثابت کر دکھایا۔ کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد سرحد پار سے آنے والے اِن لُٹے پِٹے لوگوں میں وہ عالی دماغ اور بیمثال سائنسدان بھی شامل تھا جس کا نام ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہے۔ ہوا یہ کہ بے سرو سامانی کی حالت میں سندھ میں بارڈر کراس کرتے ہوئے جب ایک بھارتی اہلکار نے ڈاکٹر صاحب کی جیب سے اُن کا فاؤنٹن پین بھی اُچک لیا تو انھوں نے بے ساختہ یہ کہا کہ ’’ کوئی بات نہیں میں اِن شاء اللہ تم لوگوں کو اِسی قلم کی مار دوں گا‘‘ اور پھر انھوں نے جو کچھ فرمایا تھا اُسے عملاً ثابت بھی کر دکھایا۔ ذرا غور فرمائیے کہ اگر سرحد پار کرکے آنے والے ڈاکٹر صاحب نہ ہوتے تو اِس ملک کا کیا ہوتا اور ہمارا حشر کیا ہوتا۔ گستاخی معاف ! ذرا یہ بھی بتائیے کہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اِس خدمت کے عوض کیا سلوک کیا گیا ؟ آخر ڈاکٹر صاحب کا کیا قصور تھا ؟ برسوں سے وطنِ عزیز میں کوٹہ سسٹم نافذ ہے اور میرٹ کا قتلِ عام مسلسل جاری ہے۔ یہ محض میرٹ کا قتلِ عام نہیں بلکہ پاکستان کے آئین میں دیے گئے برابری کے بنیادی حق کی بھی خلاف ورزی ہے جس کا اب تک نوٹس نہیں لیا گیا۔ سچ پوچھیے تو یہ نہ صرف سراسر بے انصافی اور امتیازی سلوک ہے بلکہ ملک و قوم کا بھی بہت بڑا نقصان ہے کیونکہ میرٹ سسٹم نظر انداز کرنے کی وجہ سے ملک کا بہترین ٹیلنٹ ترکِ وطن کرنے پر مجبور ہوکر بیرونی ممالک کا رخ کررہا ہے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوا رہا ہے۔ برین ڈرین کا یہ سلسلہ ملک و قوم کے لیے زہرِ قاتل سے کم نہیں کیونکہ اِس کے نتیجہ میں ملک کا جوہرِ قابل ترکِ وطنِ کرنے پر مجبور ہے۔ ذرا اِس بات پر بھی غور فرمائیے کہ یہ طبقہ اس زیادتی اور بے انصافی کے باوجود قیمتی زرِ مبادلہ کما کما کر ملک کے قومی خزانہ کو بھر رہا ہے۔ بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کسی خاص خطہ کے مخصوص لوگوں کے لیے نہیں بنایا تھا بلکہ اِس میں اُن مسلمانوں کی بے دریغ قربانیاں بھی شامل ہیں جن کی کافی بڑی تعداد پاکستان آنے سے محروم رہ گئی اور جن پر بھارت میں عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ اِس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو اِس خطہ کے لوگوں کا حال کیا ہوتا۔ کیا انھیں یہ خوشحالی اور آزادی میسر آتی یا نہیں؟ دعا دیں قائد اعظم کو جنھوں نے پاکستان بنا کر یہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیا اور بد سے بدتر حالات سنوار دیے۔ شکریہ ادا کریں اور خراجِ تحسین پیش کریں اُن لوگوں کو جنھوں نے اِس وطن کی خاطر اپنے گھر بار لُٹا دیے اور اپنی جانیں اور اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتیں لُٹا دیں۔ برسبیلِ تذکرہ میرا اسلام آباد میں ایک کالج کے سائنس کے پروفیسر صاحب سے مکالمہ ہو رہا تھا جو اپنی بڑی شیخی بگھار رہے تھے۔ میں نے عاجز آکر اُن سے یہ سوال کردیا کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو آپ کیا ہوتے؟ میرا سوال سن کر پروفیسر صاحب سٹپٹا گئے اور اُن پر خاموشی طاری ہوگئی۔ میں نے نہایت ادب کے ساتھ اُن کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ زیادہ سے زیادہ اِس کالج کے چپڑاسی یا لیب اسسٹنٹ ہوتے۔

بشکریہ ایکسپرس