1253

خواتین کو تحفظ کی ضرورت نہیں

خواتین کا عالمی دن ہر سال آٹھ مارچ کو اقوام عالم کی طرف سے منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد سماج میں خواتین کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور مساوات کے تحت خواتین کو وہ تمام حقوق تقویض کرنا جو کسی ریاست یا سماج میں ایک مرد کو حاصل ہے۔ لیکن یہ شوروغل صرف ایک دن کے لئے ہوتا ہے اسکے بعد پھر وہی کہانی دہرائی جاتی ہیں جو آٹھ مارچ سے پہلے دہرائی گئی تھی۔اس دن صرف وعدے و وعید کے ذریعے خواتین کے حقوق کی نعرے بازی کی جاتی ہیں لیکن اصل حقوق خواتین کو صرف دعوؤں کی حد تک دئیے گئے ہیں۔ اگر اس دن کے تاریخی پس منظر پہ بحث کریں تو خواتین کا عالمی دن انیس سو نو سے منایا جارہا ہے۔ 1908ء میں 15000ہزار محنت کش خواتین نے تنخواہوں میں اضافے، ووٹ کے حق اور کام کے طویل اوقات کار کے خلاف نیویارک شہر میں احتجاج کیا اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کی۔

1909ء میں امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی کی طرف سے پہلی بار عورتوں کا قومی دن 28فروری کو منایا گیا۔ خواتین کی مسلسل جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے نتیجے میں 1910 میں کوپن ہیگن میں خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں 17 سے زائد ممالک کی سو کے قریب خواتین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں عورتوں پر ہونے والے ظلم واستحصال کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ سنہ انیس سو گیارہ میں انیس مارچ کو پہلی بار عورتوں کا عالمی دن منایا گیا اور آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سویئٹزر لینڈ میں دس لاکھ سے زائد عورتوں اور مردوں نے اس موقع پر کام، ووٹ، تربیت اور سرکاری عہدوں پر عورتوں کے تقرر کے حق اور ان کے خلاف امتیاز کو ختم کرنے کے لیے نکالے جانے والے جلوسوں میں حصہ لیا۔ لیکن اسی سال پچیس مارچ کو نیویارک سٹی میں آگ لگنے کا ایک واقعہ پیش آیا۔

’ٹرائی اینگل فائر‘ کے نام سے یاد کی جانے والی اس آتشزدگی میں ایک سو چالیس ملازمت پیشہ عورتیں جل کر ہلاک ہو گئیں۔ جس سے نہ صرف امریکہ میں کام کرنے والی عورتوں کے خراب ترین حالات سامنے آئے بلکہ ان حالات کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کا سارا زور بھی امریکہ کی طرف ہوگیا۔ اس کے بعد فروری سنہ انیس تیرہ میں پہلی بار روس میں خواتین نے عورتوں کا عالمی دن منایا تاہم اسی سال اس دن کے لیے آٹھ مارچ کی تاریخ مخصوص کر دی گئی اور تب ہی سے دنیا بھر میں آٹھ مارچ کو عورتوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی خواتین کا عالمی دن بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور اس دن مختلف تقریبات کا انعقاد کرکے خواتین کی اہمیت اور انکے تحفظ اور دیگر حقوق کے متعلق مہذبانہ انداز میں تقریریں کی جاتی ہیں لیکن اسکے بعد کیا ہوتا ہے وہی حقوق کے علمبردار عورت کی آزادی پر قدغن لگا دیتے ہیں۔جو حقوق مذہب اور سماج نے ایک عورت کو عطا کئے ہیں وہ صرف الہامی کتابوں اور قانون کی کتابوں کی زینت ہے عملی طور پہ اس کا کوئی وجود نہیں۔

آج بھی خواتین کو پاکستانی معاشرے میں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔آج بھی قدیم عرب کی روایت کے مطابق لڑکوں کی پیدائش پہ خوشی اور لڑکی کی پیدائش پہ مایوسی کا رواج عام ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی ایک لڑکی تعلیم کے حقوق سے محروم ہے۔آج بھی عورتوں کو صحت کی سہولیات میسر نہیں، آج بھی کئی خواتین دوران زچکی اس دار فانی سے کوچ کرجاتی ہیں۔ آج بھی خواتین کو اعلی تعلیمی اداروں میں پہنچنے کے لئے اجازت نامہ درکار ہوتی ہیں۔ امرتا پرتیم کہتی ہیں مرد کا گناہ وقت کی تالاب میں کنکر کی طرح ڈوب جاتا ہے جبکہ عورت کا گناہ ساری عمر کنول کے پھول کی مانند سطح آب پہ رہتا ہے۔اور امرتا پرتیم کا یہ جملہ آج بھی ہمارے معاشرے میں عورت کے مقام کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے آج بھی برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ خواتین کو تحفظ کی ضرورت ہے لیکن میرے خیال میں عورت کو تحفظ سے زیادہ عزت و حقوق کی ضرورت ہے۔ اگر عورت کو مردوں کے مساوی حقوق دئیے جائیں اور انکو معاشرے میں عزت و تکریم دیا جائے تو اسے حفاظت کی ضرورت درپیش نہیں آئیگی۔ تحفظ کے نام پہ عورت کو کمزور کرنے کی کوشش کے بجائے اسے حقوق دئیے جائیں تاکہ وہ مرد کے برابر کھڑی ہوسکے۔

عورت صنف نازک نہیں وہ اپنا خیال اور تحفظ رکھ سکتی ہیں۔ جو عورت ایک ماں بن کر اپنے بچوں کی حفاظت کرسکتی ہیں،جو عورت بانڑی جیسے بہن کا کردار ادا کرسکتی ہیں، جو بیٹی ماہ رنگ بن کر اپنے والد اور بھائی کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرسکتی ہیں اور اپنے تعلیمی حقوق کے لئے حکومت وقت کو چیلنج کرسکتی ہیں اسے حفاظت کے نام پہ کمزور ثابت کرنے والے کبھی عورت کے حقوق کے ضامن نہیں ہوسکتے بلکہ اسکے لئے عورت کو خود میدان عمل کا حصہ بننا چاہئیے اور جب تک مردوں کے مساوی حقوق تقویض نہیں کئے جاتے عورت کو خاموش نہیں بیٹھنا چاہئیے۔

بشکریہ اردو کالمز