88

اردو صحافت کی دو صدیاں

    آج ہم اردو صحافت کا دو سو سالہ جشن منا رہے ہیں'یہ سفر مارچ ١٨٧٧ء میں کلکتہ سے 'جامِ جہاں جما'کی شکل میں شروع ہوا تھا۔یہ ہفتہ وار شائع ہوتا تھا اور اس کے دونوں جانب ایسٹ انڈیا کمپنی کی مہرلگی ہوتی تھی جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اس اخبار کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔یہ اخبار آغاز میں اردو میں شائع ہوا مگر جب اردو کی مانگ کم ہوتی محسوس ہوئی تو اسے فارسی میں کر دیا گیا اورآخر میں کچھ حصہ اردو ضمیمے کے طور شائع ہونے لگا مگرایک سال بعد ہی پورے اخبار کا اردو ترجمہ شائع ہونے لگا۔چار سال آٹھ مہینے بعد 'جام جہاں نما'بند ہو گیا اور ١٨٣٤ء میں ممبئی کے فارسی اخبار 'آئینہ سکندر'نے اردو ضمیمہ شائع کرنا شروع کردیا'یہ بھی ہفتہ وار اخبار تھا اور اس کے ایڈیٹر فضل الحق تھے۔شمالی ہند کا پہلا اور برصغیر کا دوسرا بڑا اخبار 'دہلی اخبار'تھا جو ١٨٣٦ء میں شاہ جہاں آباد دہلی سے شائع ہوا جس کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر تھے۔اس اخبار میں خبروں کے علاوہ ذوق'غالب'مومن اور بہادر شاہ ظفر کا کلام بھی شائع ہوتا تھا۔١٢ جولائی ١٨٥٧ء کو اس اخبار کا نام 'اخبار الظفر'رکھ دیا جو ستمبر تک اسی نام سے شائع ہوا۔٢٠ ستمبر ١٨٥٧ء کو انگریزوں نے مولوی باقر کو شہید کر دیا اور اس اہم ترین اخبار کی اشاعت بند ہو گئی۔مولوی باقر اردو صحافت کا پہلا شہید تھا جسے انگریز سامراج نے اپنے غصے اور نفرت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ 
    ١٨٣٧ء میں سرسید احمد خان کے بھائی سید محمد خان نے دہلی سے'سید الاخبار 'جاری کیاجس کے ایڈیٹر مولوی عبد الغفور تھے۔اس کے یکے بعد دیگرے 'صادق الاخبار 'کے نام سے چار اخبار جاری ہوئے جو انتہائی کم وقت میں بند ہو گئے۔١٨٤٥ء میں مولوی کریم الدین نے 'کریم الاخبار'جاری کیا'اس کے بعد دہلی سے کئی اخبار جاری ہوئے جو مختصر عرصے کے بعد بند ہوتے رہے 'ان میں بطور خاص' خلاصتہ الاخبار'،'ضیاء الاخبار'،'اخبار دہلی'،'وحید الاخبار'وغیرہ شامل ہیں۔دہلی کے بعد اردو صحافت کا دوسرا بڑا مرکزپنجاب تھا'پنجاب کا سب سے بڑا اخبار'شملہ اخبار'تھا جسے شیخ عبد اللہ نے جاری کیا لیکن پنجاب کا مشہور اخبار'کوہِ نور'ہے جسے منشی سکھ رائے نے ١٨٥٠ء میں میں شروع کیا تھااور یہ شمالی ہند کا کثیر الاشاعت اخبار تھا۔اس کے بعد یہ سفر پنجاب اور دہلی کے دوسرے شہروں تک پہنچا اور کئی اخبار یکے بعد دیگرے شائع ہوتے رہے مگر سرکولیشن کے اعتبار سے کوئی بھی اخبار قابلِ ذکر نہیں رہا۔غدر سے پہلے ان اخبارات کی تعداد چالیس کے قریب تھے مگر ہندوستان کی ناکام جنگ آزادی کے بعد یہ تعداد ١٨٥٨ء میں بارہ تک آ گئی'کئی اہم اخبار بند کر دیے گئے اور درجنوں کئی مدیران کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا'قید و بند کی صعوبتوں نے بھی مالکان کو اخبار بند کرنے پر مجبور کر دیا 'سامراجی شکست و ریخت نے اردو صحافت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔اردو صحافت کا پہلا دورجو ١٨٢٢ء سے ١٨٥٧ء تک کا ہے 'سیاسی و سماجی انتشار اور سامراجی ہتھکنڈوں کا دور تھا'اس دور میں زیادہ تر اخبارات کو سرکار کی سرپرستی حاصل رہی یا پھر اخبارات نے ہندوستانی قوم پرست نظریات کو فروغ دیا اور استعمار مخالف بیانیے کی حمایت کی۔
    اردو صحافت کا دوسرا دور ١٨٥٧ء سے ١٩١٩ء تک کا ہے' غدر کے بعد اگرچہ حالات دگرگوں تھے مگر اردو صحافت نے اپنے سفر کو قومی جذبے کے ساتھ جاری رکھا۔اردو اخبارات کا پہلا دور سیاسی انتشار اور افراتفری کا دور ہے'ایک طرف مغلیہ سلطنت کا آٹھ سو سالہ چراغ ٹمٹا رہا تھا اور دوسری طرف سامراجی اقتدار کا سورج پورے عروج پر تھا۔مولانا حسرت موہانی کا 'اردوئے معلی'،مولانا ظفر علی خان کا 'زمیندار'،مولانا محمد علی جوہر کا'ہمدرد' اور مولانا ابوالکلام آزاد کے'الہلال'نے اردو صحافت میں نئی روح پھونکی۔ تیسرا دور ١٩١٩ء سے ١٩٤٧ء تک کا ہے'بیسویں صدی کے آغاز سے ہی اردو صحافت پر سیاست اور سماجی اصلاحات کا غلبہ رہا۔کانگریس'مسلم لیگ'ہندو مہا سبھا'آریہ سماج'خلافت کمپنی اور علی گڑھ کی طرف سے شروع کی گئی سیاسی 'سماجی اور اصلاحی تحریکوں نے اخبارات کو جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔چوتھا دور تقسیم کے بعد ٢٠٠٠ء تک ہے'اس دور میں اخبارات بہت حد تک کامیابی سے سفر کرتے رہے'کئی اخبارات کی سرکولیشن ایک لاکھ تک بھی گئی'کارپوریٹ سیکٹرز سمیت تعلیمی اداروں اور کتب خانون میںاخبارات باقاعدگی سے آتے تھے'دفاتر میں بھی درجن بھر اخبار دیکھنے کو ملتے'سرکار کی سرپرستی بھی کسی نہ کسی طور حاصل رہی۔
    اکیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی جدید انقلاب آیا' اس نے نہ صرف اخبارات کی اشاعت میں مشکلات پیدا کر دیں بلکہ اخبار کا قاری بھی ختم کر دیا ۔اب کارپوریٹ سیکٹرز سے لے سرکاری دفاتر تک'اخبارات نہ ہونے کے برابر ہیں۔سرکاری کتب خانوں اخبار جاتے ہیں مگر اس کے پاس نیا قاری نہیں'قاری اب سامع اور ناظر بن گیااور پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا پر شفٹ ہو گیا۔٢٠٠٠ء سے ٢٠١٢ء تک'سب کچھ جدید ہو گیا'اخبارات اشتہارات کے سہارے چلتے تھے'جب اشتہارات ٹی وی پر منتقل ہوئے'خبروں سے دل چسپی رکھنے والے ٹاک شوز پر منتقل ہو گئے تو اخبار کی اہمیت و افادیت بھی کم ہو گئی۔مگر یہ انقلاب رکا نہیں ٢٠١٤ء کے بعد  ایک اور بڑا انقلاب آیا جو گزشتہ کو بھی بہا کر لے گیا'وہ تھا سوشل میڈیا کا انقلاب۔اردو صحافت کا جو سفر مارچ ١٨٢٢ء میں کلکتہ سے 'جام جہاں نما'کی شکل میں شروع ہوا تھا'آج دو سو سال بعد یعنی ٢٠٢٢ء میںسوشل میڈیا تک پہنچ گیا اور ہم جانتے ہیں یہ سلسلہ رکے گا نہیں بلکہ ٢٠٢٥ء تک سب کچھ ویب ٹی وی اورویب چینلز پرمنتقل ہو جائے گا'ایسے میں ہر دوسرا شخص آپ کو کسی نہ کسی چینل کا مالک ملے گا اور اسے ملٹی نیشنل کمپنیوں سے اشتہارات بھی مل رہے ہوں گے۔ہم اس انقلاب کو روک نہیں سکتے اور نہ ہی ہم یہ رونا رو سکتے ہیں کہ قاری ختم ہو گیا ۔قاری ختم نہیں ہوا بلکہ اخبار کا قاری اب ڈیجیٹل ہو گیا ہے'اسے اب پندرہ سے بیس روپے والے اخبار کی جگہ موبائل کی شکل میں ایسا ٹی وی میسر آ چکا جسے وہ جیب میں ڈال کر پھر رہا ہے'وہ جہاں چاہے'ٹی وی آن کر کے خبر دیکھ سکتا ہے بلکہ آج کا قاری اب صرف قاری نہیں ' مخبر بن چکا۔اس کے پاس اپنا ویب چینل'اپنی ویب سائٹ'بلاگ سائٹ'سوشل میڈیا پیجز موجود ہیں۔لہٰذا اردو صحافت نے دو سو سالوں میں بہت تبدیلیاں دیکھیں'یہ تغیرات اور اس کے ثمرات کیسے رہے'آپ خود فیصلہ کر لیں'میں اس سفر سے بہت مطمئن ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

بشکریہ اردو کالمز