83

نئے سپہ سالار کے نام ایک خط

’’خداتم کو حکم دیتا ہے ہے امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو۔ اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو۔ خدا تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے۔ بے شک خدا سنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘(سورۃ النساء۔ آیت 58۔ مضامین قرآن حکیم۔ مرتّبہ۔ زاہد ملک)

جناب جنرل حافظ سید عاصم منیر بہت بہت مبارکباد اور دل کی گہرائیوں سے دُعا بھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کڑے امتحان میں سرخرو ہونے کی توفیق دے۔ یہ عہدۂ جلیلہ پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ کلیدی منصب رہا ہے ۔ اس سے توقعات بہت رہی ہیں مگر چند ایک ہی تاریخ اور جغرافیے کی امیدیں پوری کرسکیں۔

آپ کو ہدیۂ تبریک بھی پیش کرنا ہے لیکن ساتھ ساتھ ہمدردی بھی کہ آپ اس عظیم مملکت کے جس موڑ پر سپہ سالار مقرر ہوئے ہیں، اس وقت واہگہ سے گوادر تک ایک انارکی ہے۔ کرپشن کا دَور دورہ ہے۔ مالی کرپشن بھی، ذہنی بھی، ذاتی مفادات قومی مفادات پر حاوی ہیں۔ ملک کے حقیقی مالک یعنی 22کروڑ عوام حکمرانوں، سیاستدانوں اور اداروں سے تنگ آچکے ہیں۔ پہلے یہ گلے شکوے سینہ بہ سینہ چلتے تھے۔اب کروڑوں پاکستانیوں کے ہاتھوں میں موبائل ہیں۔ ساری آہ و فغاں اسکرین پر بلند ہوتی رہتی ہے۔ مبالغہ آرائی بھی ہے۔ ہمارے بیرونی دشمن بھی اس صورت حال سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ بہت سے سوشل میڈیا گروپوں کی آبیاری ان دیرینہ دشمنوں کی طرف سے بھی کی جارہی ہے۔ ہمارے سیاسی، سماجی اور مذہبی قائدین اپنے حامیوں کو اعتدال پر رکھنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ معیشت سنبھالنے کے ذمہ دار اپنی ذاتی کمزوریوں کی بنا پر ملک میں مالی استحکام نہیں لاسکے۔

حقیقت یہ بھی ہے کہ آپ کی تقرری سے ملک کی اکثریت نے اطمینان کا سانس لیا ہے۔ ہر پاکستانی کے دل میں روشن مستقبل کے لئےامید جاگ اٹھی ہے۔ اب ہم جیسے عمر رسیدہ پاکستانیوں کی دعا یہی ہے کہ آپ 22 کروڑ کی توقعات پر پورا اتریں۔ پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ وہ اس ملک کی بنیاد ’’لاالہ الا اللہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ اس لئےجب انہیں معلوم ہوا کہ آپ کے سینے میں اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید محفوظ ہے تو انہیں مزید تسکین ہوئی ہے کہ آپ اپنے دماغ میں موجود تجربات و مشاہدات کے ساتھ اپنے سینے میں محفوظ اس روشنی سے بھی رہنمائی حاصل کریں گے تو وہ یہ باور کررہے ہیں کہ پاکستان اب ایک فیصلہ کن موڑ سے ہمکنار ہورہا ہے۔ اس ڈولتے جہاز کو لنگر انداز ہونے کے لئے ساحل نصیب ہورہا ہے۔ ہمارے اندرونی اور بیرونی تجزیہ کار سول ملٹری تعلقات کی اصطلاح استعمال کرتے رہے ہیں۔ غیر ملکی مصنّفین اور مورخین نے کتابوں کے نام بھی ایسے رکھے ہیں۔The Warrior State ۔ Pakistan -A Hard Country -A Garrison State۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے لمحات بہت کم بلکہ آئے ہی نہیں ہیں۔ جب امور مملکت اپنے آئین کی حدود اور قیود میں چلائے گئے ہوں لیکن میں اسے سول ملٹری کشیدگی نہیں کہتا کیونکہ پاکستان کے عوام اور پاکستان کی فوج کے درمیان کبھی کوئی تنازع نہیں ہوا۔ چند سیاستدانوں اور چند جنرلوں کے درمیان کشمکش ضرور ہوئی ہے۔اس میں دونوں برابر کے ذمہ دار ہیں۔

پاکستان کو ابتدا سے ہی دشمن ہمسائے ملے ہیں۔ ایک طرف بھارت دوسری طرف افغانستان۔ اس لئے ہماری سرحدوں پر خطرات منڈلاتے رہے ہیں۔ بھارت پاکستان پر تین مرتبہ باقاعدہ جارحیت کا ارتکاب کرچکا ہے۔ مشرقی پاکستان۔ سندھ۔ بلوچستان میں تخریب کاری کرتا رہا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کو دوسرے ملکوں کی نسبت سلامتی کے زیادہ خطرات رہے ہیں۔ اس لئے یہاں ایک طاقت ور۔ جدید اسلحے کی تربیت یافتہ فوج کو سبقت حاصل رہی ہے۔ بھارت کی طرف سے کشمیر پر غاصبانہ قبضے نے بھی پاکستان کے لئے عسکری تیاریاں ناگزیر رکھی ہیں۔ افغانستان پشتونستان کا ہوّا کھڑا کرتا رہا ہے۔

پاکستان کے سیاسی امور میں فوجی مداخلت پر خود پاکستانی جنرلوں نے بھی بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ اس لئے ان المیوں کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

سبکدوش ہونے والے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے بجا طور پر یہ کہا ہے کہ اب فوج سیاست سے دور رہے گی۔ لیکن پاکستان کے 75 سال کے پس منظر میں یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ پاکستانی سماج عسکریت کا عادی ہوچکا ہے۔ فوجی حکومت ہو یا منتخب سیاسی حکومت ہماری فوج غالب رہتی ہے کیونکہ ہماری قومی سیاسی پارٹیاں اپنے اندر جمہوری ڈھانچہ نہیں رکھتیں۔ فوج میں پھر بھی ڈسپلن ہے، مہارت ہے ۔پیشہ ورانہ معیار ہے۔ یہاں قیادت موروثی نہیں ہے۔ اپنے قواعد و ضوابط کے تحت ہی ایک عام فوجی کیپٹن، میجر، کرنل، بریگیڈیئر، میجر جنرل اور لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچتا ہے۔

اب جب آپ پاکستان کے سپہ سالار مقرر ہوگئے ہیں۔29 نومبر کو انشاء اللہ آپ اس عظیم فوج کی کمان سنبھالیں گے۔ جنرل قمر باجوہ چھڑی آپ کے سپرد کریں گے۔ یہ یقیناً ایک شاندار لمحہ ہوگا۔ آپ کیلئے، فوج کیلئے اور پاکستان کے عوام کیلئے۔ پاکستان کے عوام بھی جانتے ہیں کہ صرف اعلان سے فوج سیاست سے دور نہیں ہوجائے گی۔ اس کے لئے باقاعدہ لائحہ عمل طے کرناہوگا۔ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ پہلے بھی فوج نے بیرکوں تک محدود ہونے کی کوشش کی ہے۔ مگر بعض طالع آزما جنرلوں نے ذاتی مفادات کے لئے نامعلوم ٹیلی فونوں کا سہارا لیا۔ جس طرح بعض سیاستدان پسندیدہ جنرلوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس طرح بعض جنرل بھی پسندیدہ سیاستدانوں کی جستجو میں رہے ہیں۔ اس سے مسائل اور المیوں نے جنم لیا ہے۔ جس طرح پاکستان کے عوام نے 75سال اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر ملکی سلامتی کی خاطر فوج کو مضبوط بنایا ہے۔ اسی طرح اب فوج کو بھی آئین کی پابندی کرتے ہوئے عوام کی خوشحالی اور ملکی استحکام کے لئے پرانی روش کو چھوڑنا ہوگا۔ ہر تحصیل، ہر ضلع اور ہر صوبے پر نظر رکھنا ہوگی کہ فوج صرف اپنے پیشہ ورانہ امور تک محدود رہے۔ کون وزیر اعظم ہو۔ کون وزیر اعلیٰ ہو۔ یہ منتخب حکومت پر چھوڑ دیا جائے۔ اب کہیں بھی کوئی پاکستانی لاپتہ نہیں ہونا چاہئے۔

پاکستان کے کمزور اور غیر مقبول سیاستدان فوج کو مداخلت کیلئے اب بھی مجبور کریں گے۔ وہیں سپہ سالار کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری اور ضمیر کی آواز سننا ہوگی اور یہ دیکھنا ہوگا کہ عوام کا موڈ کیا ہے؟ اب امانتیں جن کی ہیں، ان کے سپرد کرنے کا وقت آگیا ہے۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم