104

غربت اور مہنگائی ۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ

غربت ، بیروزگاری اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے دعوئوں کے باوجود ڈالر دو سو سے نیچے نہیں آسکا اور نہ ہی سونے کی قیمت کم ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت جب اپوزیشن میں تھی تو عمران خان کے دور میں بڑھنے والی غربت، بیروزگاری اور مہنگائی کو نا اہلی کا نام دیا گیا اور دعوے کئے جاتے تھے کہ نا اہل حکومت ختم ہو گی تو معاشی معاملات درست ہو جائیں گے۔ جبکہ آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کے قریب پہنچ چکا ہے۔ غربت، بیروزگاری اور مہنگائی میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ سابقہ حکومت کی نا اہلیوں اور غلطیوں کی سزا موجودہ حکومت کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔ در حقیقت یہ عذر گناہ بد تر از گناہ کے مترادف ہے کہ جب میاں نوازشریف برسراقتدار تھے اور ان کے جانے کے بعد اقتدار عمران خان کو ملا تو اس وقت بھی عمران خان یہی بات کرتے تھے کہ ہم سابقہ حکومتوں کی غلط کاریوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ جبکہ ہوتا یہ ہے کہ جو بھی برسراقتدار آئے وہ بتائے کہ اس نے کیا کامیابیاں حاصل کیں؟ اور لوگوں کو کیا ریلیف دیا؟ غریب عوام کو سزا دینے اور اپنی اپنی ناکامیوں کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کے بجائے اپنی کارکردگی عوام کے سامنے لائی جائے۔ وفاقی حکومت کہہ سکتی ہے کہ مہنگائی کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ جبکہ سٹیٹ بینک نے گزشتہ روز جو سٹیٹ منٹ جاری کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ مہنگائی کا مسلسل دبائو توقعات سے زیادہ ہے۔ اسی بناء پر سود کی شرح میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ سٹیٹ بینک نے کہا کہ غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ بلند سطح پر چلا گیا ہے۔ بڑی صنعتوں کی پیداوار کم ہوئی ہے۔ سیلاب کی وجہ سے چاول اور کپاس کی فصلوں کو نقصان ہوا ہے۔ مینوفیکچرنگ اور تعمیرات سست رہی۔ سٹیٹ بینک نے یہ بھی کہا کہ معیشت سست روی کا شکار ہے۔ جس کے باعث مہنگائی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ برآمدات میں بہتری کی بجائے کمی ہوئی ہے۔ فنانسنگ کے لحاظ سے ملک میں بے یقینی کی کیفیت ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی آمد کے بعد یہ سٹیٹ بینک کی دوسری مانیٹری پالیسی ہے۔ پاکستان کے کروڑوں عوام یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو اُن کے دعوے کیا ہوتے ہیں اور جب برسراقتدار آتے ہیں تو نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ یہ حکومت کے اپنے مرکزی بینک کی رپورٹ ہے۔ آپ مارکیٹ میں چلے جائیں آپ کو آٹے ، دال کا بھائو معلوم ہو جائے گا۔ کبھی سوچا نہ تھا کہ انڈے تین سو سے ساڑھے تین سو روپے درجن تک چلے جائیں گے۔ پیاز دو سو سے اوپر چلا جائے گا۔ سبزی، فروٹ ، کھانے کا تیل، توانائی، ایندھن سب کو آگ لگی ہوئی ہے۔ غریب لوگ کہاں جائیں؟ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری سے غریب عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ سیاستدانوں کو اقتدار کی جنگ سے فرصت نہیں۔ اس وقت تمام اقتدار پرست جماعتیں برسراقتدار ہیں۔ کوئی کسی کو دوش نہیں دے سکتا۔ کوئی مرکز میں ہے اور کوئی صوبوں میں۔ پیپلز پارٹی مرکز میں بھی ہے اور صوبہ سندھ بھی اس کے پاس ہے۔ پنجاب، کشمیر، بلتستان اور خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف برسراقتدار ہے اور بلوچستان میں بھی بلوچستان کی مختلف جماعتیں برسراقتدار ہیں۔ سب کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ جہاں جہاں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں وہ بھی سب دیکھ رہے ہیں۔ پس منظر کے ساتھ ساتھ پیش منظر بھی سب کا عوام کے سامنے ہے۔ پس منظر اور پیش منظر سے مستقبل کے منظر کی پیش گوئی کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو سچی بات یہ ہے کہ تقریروں سے غریب کا پیٹ نہیں بھرتا اور نہ ہی غربت کا خاتمہ ہو گا۔ جہاں تک غربت، پسماندگی اور محرومی کے خاتمے کیلئے پلاننگ کی بات ہے تو ابھی تک کسی نے بھی اس طرح کا منصوبہ سامنے نہیں لایا۔ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے اور ایک دوسرے کو طعنے دینے کے سواء مستقبل کا کوئی آئیڈیا سامنے نہیں آیا۔ لوگ اس سے مایوس نہیں تو کیا ہوں گے؟ زرعی ملک ہونے کے باوجود حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک عرصے سے ملک بھر میں سبزیوں کی پیداوار وافر ہونے کے باوجود ان کی قیمتیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور عوام اس صورت حال سے انتہائی پریشان ہیں۔آٹا اور چینی مافیا نے تو جو کھیل کھیلا اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے لیکن کیا اب یہ سمجھا جائے کہ سبزی مافیا بھی دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہا ہے اور حکومت صرف بیانات کی حد تک کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ جب بھی مسائل پر سنجیدگی کے ساتھ غور ہوگا تو زرعی حوالے سے یہ بات سامنے آئے گی کہ نا مناسب کھادوں، زہریلی زرعی ادویات کا استعمال ہونے کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار میں کمی ہونے لگی ہے۔ آٹے کا بحران پیدا کرنے میں حکومت کے افسران کی ملی بھگت سے فلور ملز مالکان کا بھی ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر دیانت داری سے دیکھا جائے تو پاکستان میں خوراک کی کوئی کمی نہیں، وسیب کے بہت سے اضلاع متاثر ہوئے ، اس سیلاب میں سرکاری گوداموں میں پڑی لاکھوں ٹن گندم ضائع ہوئی اور جب سیلاب کا پانی خشک ہوا تو اس کے تعفن سے بیماریاں پھیلیں اور حکومت نے کروڑوں روپیہ خرچ کر کے خراب ہونے والی گندم کے گودام صاف کرائے ۔ ظلم یہ ہے کہ حکومت نے گندم ضائع کر دی غریبوں کو نہ دی۔آج کا سوال یہ ہے کہ وسیب میں گندم کے گودام بھرے ہوئے ہیں مگر غریبوں کے پیٹ خالی ہیں ؟ غربت اور بیروزگاری کا تماشہ دیکھنا ہو تووسیب کا وزٹ کیجئے ۔ ریاست مدینہ کے امیر المومنین نے کہا تھا کہ دریائے فرات پر کتا بھوکا مر جائے تو اس کا ذمہ دار ہوں۔ آج اناج پیدا کرنیو الے کی غربت انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے۔کروڑوں لوگ غربت اور بیروزگاری سے نقل مکانی کرنے پر مجبورہیں۔سرائیکی شاعر قیس فریدی کے ایک شعر کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے وافر اناج پیدا کیااس کے گھر دانے کیوں نہیں؟ شعر دیکھئے ’’ساری دھرتی دے کھیت جیں رادھن، اوندے گھر دا اناج کیڈے گیا‘‘؟ وسیب میں آنیوالے بدترین سیلاب کے بعد لوگ آج بھی سردیوں میں ٹھٹھر رہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ابھی تک سیلاب متاثرین کی کوئی مدد نہیں کی۔لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم سے سوتیلی ماں کا سلوک کیوں؟

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز