131

جہل کے کئی رنگ ہیں!

یہ دکھ نہیں کہ وہ سمجھا نہیں مرے فن کو مخالفت کا سلیقہ نہیں تھا دشمن کو میں کس مقام سے بولوں میں کس سے بات کروں کہ خواہشات کا کاسۂ ملا ہے اس تن کو کیا کریں ایسے ہی میر نے بھی کاسہ سر استعمال کیا ہے کہ یہ وہ کاسہ ہے بھرتا ہی نہیں ہے کوئی اس سے بے نیاز تو نہیں ہو سکتا۔ خوشی اور خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ کاسہ الٹا ہے بس احتیاط یہ کہ اسے سیدھا نہ کیا جائے۔ چلئے اس سے آگے سوچتے ہیں کہ عجیب خواب بصارت پر جم رہے ہیں مرے ۔مرے خیال نے چوما ہے اک نئے پن کو ۔یہ سادگی تھی مری مشورے جو دل سے کئے کہ میں نے خود ہی بڑھایا ہے اس کی دھڑکن کو۔سر کی بات ہوئی تو اس کے کنٹنٹس بھی ذھن میں آ گئے پھر جگرمراد آبادی کا شعر ذھن میں آ گیا: جہل خرد نے دن یہ دکھائے گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے اس پر بہت کمال کی بات ہمارے پیارے دوست ڈاکٹر ناصر قریشی نے کی کہ جہالت دو طرح کی ہوتی ہے ایک جہالت بسیط اور دوسری جہالت مرکب۔ اس پر میرے ذھن میں آیا کہ جہالت مرکب کے مقابلے پر تو جہالت مفرد کی اصطلاح ہونی چاہیے اس پر دلچسپ گفتگو ہوئی ہمارے دوست ڈاکٹر فرقان احمد قریشی بھی شامل ہو گئے چلیے پہلے آپ ان اصطلاحات کی تعریف تو سن لیں کہ آپ کو یہ کام آئیں گی۔ جہالت بسیط یا مفرد وہ جہالت ہے کہ آپ سے کوئی سوال کیا جائے تو آپ کو اس کا جواب معلوم نہ ہو اس میں کوئی خاص حرج بھی نہیں کہ آپ کو علم نہیں تھا دوسری جہالت یعنی مرکب خطرناک ہے کہ جب کوئی آپ سے سوال پوچھے تو آپ کو جواب ہی معلوم نہ ہو مگر آپ ایسے ہی کوئی اور جواب داغ دیں تو آپ دہرے قصور کے مرتکب ٹھہرے۔ غلط جواب دے کر تو گمراہ کرنے والی ہے۔ ویسے ایک جاہل مطلق بھی تو ہوتا ہے گویا کوئی جہالت مطلق بھی ہوتی ہے۔ میرا خیال یہ ایسی جہالت ہے جس کا آپ کبھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ وہی زمیں جنبد نہ جنبدکل والا معاملہ ہے، ظاہر ہے جہالت کا تذکرہ ہو تو ابوجہل کا نام نہ آئے۔ ہم نے بھی کبھی ایک شخص کے بارے میں کہا تھا کہ وہ آمر تھا خود کو حرف آخر سمجھتا تھا اس سے چھٹکارے کے لئے باقاعدہ تحریک چلائی گئی: اے خدا لوگ تجھے دیکھتے ہیں اور تونے ایک فرعون کی مہلت کو بڑھا رکھا ہے یقینا آپ کو معلوم ہو گا کہ ابوجہل کو ابوالحکم کہتے تھے ابو جہل تو اس واسطے کہلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے کہہ دیا تھا کہ یہ کیسا ابو حکم ہے جو اسلام کی حقانیت سے انکار کر رہا ہے۔ یہ تو ابو جہل ہے۔پھر یہی نام اس کی پہچان بن گیا۔جہالت میں ایک اور خوبی ہوتی ہے کہ اس میں ہٹ دھرمی ہوتی ہے ابوجہل چاہتا تھا سب کچھ جانتا تھا مگر اس کی انا اور چودھراہٹ سامنے آ گئی تو اس نے ایمان کی حقانیت کو جانتے بوجھتے ہوئے ماننے سے انکار کر دیا بلکہ دوسروں کو بھی اس سے روکا بس ایسے ہی اشرف قدسی صاحب کا ایک شعر یاد آ گیا: اعلان جہل کر تجھے آسودگی ملے دانشوری تو خیر سے ہر گھر میں آ گئی ہم ابو جہل کے زمانے کو زمانہ جاہلیت بھی اسی لئے کہتے ہیں کہ تب قرآن کی روشنی پھیلی نہیں تھی۔ دین کامل آنے سے پہلے ایسے ہی تھا کہ بچیوں کو زندہ گاڑ دیا جاتا ہے سود تھا قتل و غارت تھی۔ اسلام نے آ کر انہیں عظمت انسان بتائی اور عورت کے مقام سے آگاہ کیا۔یہ خدا کا نظام تھا کہ جس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں۔ جہاں تک علم کا تعلق ہے تو تب بھی بہت کمال کی شاعری موجود تھی پھر کیا حافظے تھے ان کے۔ عربی جاننے کے لئے زمانہ جاہلیت کا ادب ازبس ضروری ہے اور بتائیے کہ میں کیا لکھوں کہ جہالت اور جہل پر لکھنے کے لئے بھی تو علم کی ضرورت ہے۔ دلیل تو جہالت میں بھی کہ جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے جو سو جھوٹ بولنا پڑتے ہیں وہ گمراہی کے سوا کیا ہے لوگوں کو اپنے وعدوں سے گمراہ کرنا بات پہ بات بدل جانا اور اسے دانشمنی بتانا۔وہ جو اکبر کا دین الٰہی تھا وہ بھی تو جہل ہی کی قسم تھی کہ ایسا دین جو سب کو خوش رکھ سکے وہ بہت چالاک آدمی تھا ہندوئوں کو دائیں جانب بٹھاتا مسلمانوں نے اعتراض کیا تو مسلمانوں کو یہ کہہ کر مطمئن کر دیا کہ دل تو اس کے بائیں طرف ہے۔یہ بات بالکل سیدھی ہے کہ جہالت تیرگی ہے اور علم روشنی ہے مگر میں سوچتا ہوں کہ روشنی نمایاں بھی تو اندھیرے میں ہوتی ہے روشنی کے لئے جہالت کو دور کرنا ہی پڑتا ہے۔ جگر مراد آبادی کے شعر سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جہل کا خرد سے ہی گہرا تعلق ہے اور دل کا تعلق روشنی سے ہے تبھی دل کو چراغ بھی سمجھا جاتا ہے ۔خیال آیا کہ الطاف حسین حالی نے بھی مسدس حالی میں قبل اسلام کی جہالت کا تذکرہ کیا تھا۔ اور ایک بات سوچنے والی ہے کہ اس کو کیا نام دیا جائے کہ انسان اپنے پیدا ہونے کا کوئی مقصد ہی نہ جان سکے۔اپنے آپ ہی سے غافل ہے اور اپنے آپ کو ہی دریافت نہ کر سکے۔ اپنی ذمہ داریاں اور دوسروں کے حقوق سے آشنا نہ ہو سکے۔آگہی سے کنارہ کش رہے کچھ جاننے کی جستجو کرنا ہی اصل بات ہے۔ اس کے لئے سعی لازم ہے غلط بات کو درست ثابت کرنے کے لئے علم کے دریا بہانا کوئی عقل کی بات نہیں۔ سچ کے ساتھ کھڑے ہونا عبادت ہے۔ کہتے ہیں کہ جتنا آپ علم حاصل کریں گے اتنا ہی جہالت کو دور جاتے آپ دیکھ لیں گے۔ اگر آپ علم کے لئے جگہ فراہم نہیں کریں گے اور دل کا دروازہ بند کر لیں گے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ آپ کی عقل آپ کو گمراہ کرتی ہے مثلاً آپ کو یہ تو علم ہے کہ میں کو مارنا ہے یعنی آپ کو ختم کرنا ہے اپنی ذات کی نفی کے لئے آپ کوئی طریقہ اپناتے ہیں۔کہنے کا مطلب ہے کہ جہل کے کئی رنگ ہیں۔اس کو دور کرنے کے لئے تنزیل کی روشنی چاہیے۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز