157

الوداعی کلمات کی روایت !!

رخصت ہوتے ہوئے موقع محل کی مناسبت سے الوداعی کلمات کہنے کی اہمیت پر مضمون میں نے اپنے کالج کے دور میں ریڈرز ڈائجسٹ میں پڑھا تھا۔میرے لیے یہ نیا موضوع تھا جو ایک پرانے ریڈرز ڈائجسٹ میں پڑھنے کو ملا۔ میں جس شہر میں رہتی تھی وہاں باہر سے آنے والے انگریزی رسالوںکا ملنا محال تھا ۔خانپور میں ہمارے ہاں لاہور سے پرانے ریڈرز ڈائجسٹ آیا کرتے۔ جسے ہم سب بہن بھائی پڑھتے تھے مجھے خاص طور پر یہ رسالہ بہت پسند تھا۔ایسے ہی ایک سال خوردہ میگرین میں یہ مضمون پڑھا تھا The importance of saying goodbye. یہ کہ رخصتی کے وقت کو بھی خوبصورت اورچ یادگار بنایا جاسکتا ہے۔ رخصت ہوتے وقت موقع محل کی مناسبت سے حالات کے سیاق و سباق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے دلی جذبات کا اظہار الوادعی وقت کو یادگار بناسکتے ہیں۔ مگر میں خود ایک مختلف مزاج کی انسان ہوں مجھے رخصتی اور الوداعی مناظر اچھے نہیں لگتے ۔میں زندگی میں کوشش کرتی رہی کہ الوداعیہ منظر کا حصہ نہ بنوں مگر ایسا ممکن کہاں ہوتا ہے۔ ایک رخصتی ایسی تھی میں جس سے گریز نہیں کر سکتی تھی وہ میری اپنے گھر سے شادی کے وقت رخصتی تھی۔یہ وقت لڑکیوں کے لئے بہت ہی جذباتی ہوتا ہے اور اس وقت جب ماں بھی حیات نہ ہو میرے لیے بہت ہی جذباتی وقت تھا میں اپنے والد صاحب سے بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر کہہ نہیں پا رہی تھی۔اس مشکل کا حل یہ نکالا کہ میں نے ایک خط اپنے والد صاحب کے نام لکھا اور ان کے قمیص کی ایک جیب میں چپکے سے ڈال کر انہیں۔بتایا دیا کہ آپ کے نام ایک خط لکھ کے رکھا آپ پڑھ لیجے گا۔مجھے یقین ہے کہ بعد میں انہوں نے وہ خط آنسوؤں کے درمیان پڑھا ہو گا۔ امریکہ کی تاریخ میں جتنے بھی امریکی صدور گزرے ہیں وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوتے وقت وائٹ ہاؤس کے اوول آفس سے ایک آفیشل گڈ بائے سپیچ کرتے ہیں۔ہر صدر الوداعی تقریر اپنے مزاج اور افتادطبع کے مطابق کرتا ہے۔امریکہ کے 33,ویں صدر پیر ی ٹرو مین نے امریکی صدر کی حیثیت سے دو ادوار گزارے۔ صدارتی دور کے اختتام پر صدر ٹرومین نے 24, منٹ کی الوداعیہ تقریر کی جو اب تک کی جانے والیصدرارتی الوادعیہ تقریروں میں طویل اور دلچسپ ہے۔اس تقریر میں صدر ٹرومین نے بہت سی باتیں کی اور ان غیر معمولی حالات کا ذکر کیا جب وہ1945 اس وقت کے صدر روزویلٹ کے اچانک انتقال کے بعد 33ویں امریکی صدر بنے ۔ ٹرومین اپنی تقریر میں کہا کہ میں اس روز سینٹ کا اجلاس ختم ہونے کے بعد روزویلٹ کے ایک سیکریٹری کی کال پر فوراً وائٹ ہاؤس پہنچا تو مسز رویلٹ نے پریشانی کے عالم میں بتایا کہ صدر اپنے پورٹریٹ بنوانے کے دوران برین ہیمرج کا اٹیک ہونے سے انتقال کرگئے ہیں۔اس ناگہانی صورت میں مجھے صدرات کا عہدہ سنبھالنا پڑا۔ یہ الوداعی تقریر بہت ہی دلچسپ ہے اس میں صدر ٹرومین بتاتے ہیں کہ کہ امریکہ کے صدر ہونے کا مطلب کیا ہے اس کے اوپر فیصلہ سازی کی کتنی بھاری ذمہ داری ہے عائد ہوتی ہے۔ اپنی تقریر میں وہ کہتے ہیں کہ کچھ دیر کے بعد وہ سابق صدر ہو جائیں گے اور وہ ٹرین پر بیٹھ کر اپنے شہر واپس چلے جائیں گے۔ انہیں ایک عام امریکی شہری ہونے کا اعزاز واپس مل جائے گا جس پر وہ بہت خوش ہیں۔صدر باراک اوباما نے اپنے آٹھ سال کے صدارتی دور کے بعد تقریر کی اور اپنی بیوی مشل اوباما کا خاص طور پر شکریہ ادا کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔کہا کہ میری بیوی اور میری بیٹیوں نے امریکی صدر کے ساتھ تعلق کی بنا پر وہ ذمہ داریاں بھی ادا کی ہیں جو ان پر واجب بھی نہیں تھیں۔ صدر اوباما کی الوداعیہ تقریر کے دوران آنسو صاف کرتے ہوئے تصویر آج بھی امریکہ کی تاریخ کا حصہ ہے۔ جنرل ڈگلس میک آرتھر امریکی تاریخ کے سب سے طویل عرصے تک ملٹری کیرئیر رکھنے والے جنرل تھے1951میں وہ امریکی ملٹری لیڈر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔طویل ترین کیریئر رکھنے کی بنیاد پر انھیں کانگریس کے جوائنٹ سیشن سے الوداعی تقریر کرنے کی دعوت دی گئی۔ جنرل ڈگلس نے الوداعی کلمات میں کہا کہ میں نے اپنے ملٹری کیرئیر کا آغاز یہ صدی شروع ہونے سے ایک سال پیشتر کر دیا تھا۔ میں نے اپنی زندگی کے 52 برس فوجی زندگی میں گزارے۔ یہ طویل سفر ہے جس میں امریکہ کے چیف آف آرمی سٹاف کے حیثیت سے اہم معرکوں کا تذکرہ بھی کیا اور کہا میں ایک جنرل کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا اختتام کر رہا ہوں مگر میں ہمیشہ ایک سپاہی اور امریکہ کا ایک عام شہری رہوں گا انہوں نے قدیم فوجی ترانے کے تاریخی الفاظ پر اپنی تقریر کا اختتام کیا: "old soldiers never die:they just fade away""بوڑھے سپاہی کبھی مرتے نہیں بس وہ کسی دھند میں کھو جاتے ہیں۔" ان دنوں میڈیا میں ایک اہم الوداعی خطاب کی گونج ہے۔ یہ تقریر 29 نومبر 2022کو ریٹائرڈ ہونے والے جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہے ۔23نومبر کو جی ایچ کیو میں شہدا کا دن مناتے ہوئے جنرل باجوہ نے غیر معمولی الوداعی خطاب کیااس تقریر میں جنرل باجوہ نے نے کچھ باتیں بہت واضح کہیں اور کچھ پیغام بین السطور دیا۔کہیں کہیں جنرل باجوہ اپنے الوداعی خطاب میں رنجیدہ بھی نظر آئے انہوں نے شکوہ کیا کہ سیاست دانوں نے اپنی فوج کو تنقید کا نشانہ بنائے رکھنا۔طاقت کے پیڈسٹل سے نیچے اترتے ہوئے ایک رخصت ہونے والے جنرل کی یہ ایک یادگار الوداعی تقریر تھی۔کیونکہ اس میں قوم اور اور سیاستدانوں کے نام وہ باتیں کی گئیں جو شاید اس سے پہلے کسی جنرل نے نہیں کیں۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز