98

خود کو قطرہ قطرہ مرنے نہ دو

ہنری ڈیوڈ تھورو کا کہنا ہے ’’خود کو دیکھنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا پیچھے مڑے بغیر کسی کو دیکھنا ‘‘کولمبیا کے عظیم ادیبGabriel Garcia  Marquez کا نوبل انعام یافتہ ناولOne Hundred Years of Solitadeجو زندگی کے بہت سے موضوعات کا مجموعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پوری تہذیب کی نمو سے فنا تک کا یہ ناول آپ کو سکھاتا ہے کہ لیٹرے تلواریں لے کر آپ کی بستی پہ آن وارد ہوں یا کسی کمپنی کے نام سے گھسیں ، ان کا مقصد لوٹ مار، منافع اور مقامی لوگوں کے استحصال کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ تجسس اگر آپ کو تنہائی کا شکار بنادے یعنی تخلیق سے خالی ہو جائے تو آپ سماج سے کٹ جاتے ہیں اور سماج سے کٹنے کا مطلب موت ہے۔

ادھوری جنگیں ، ادھورے انقلاب صرف ان ہی کو نقصان نہیں پہنچاتے جو جنگیں یا انقلابی تحریکیں شروع کرتے ہیں بلکہ اگلی بہت سی نسلوں کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ ایک ایسی جنگ اس ناول میں بھی لڑی جاتی ہے جسے عین فیصلہ کن موڑ پر ترک کر دیا جاتا ہے نتیجتا اگلی تین نسلیں ان ہی کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرح کٹتی رہتی ہیں ، جن سے سمجھوتہ کیا گیا تھا مزاحمت کے بغیر کوئی انسان بستی یا نسل اپنی بقا برقرار نہیں رکھ سکتی۔

انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی اور مجموعی سماج تک انسان کو باقی رہنے کے لیے مزاحمت کا دامن مضبوطی سے پکڑے رکھنا چاہیے۔ ’’ بویندے ‘‘ خاندان اور ’’موکوندو ‘‘ کی بستی پر ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہاں کے باسی مزاحمت کے بجائے تنہائی اور مایوسی کی طرف نکل جاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ پوری بستی اپنی تہذیب سمیت مٹ جاتی ہے۔

ہم میں اگر خود کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہو تو ہمیں صرف ’’ تنہائی کے سو سال ‘‘ کا مطالعہ کر لینا چاہیے، جہاں ہماری ملاقات خود ہم سے اور ہمارے ساتھ ہمارے آباؤ اجداد سے بھی خود بخود ہوجائے گی، کیونکہ ہماری کہانی ’’ تنہائی کے سو سال ‘‘ نہ سہی لیکن ’’ تنہائی کے 75سال ‘‘ ضرور ہے ۔ ’’ تنہائی کے 75سال ‘‘ تین نسلوں کی کہانی ہے ۔ ہماری موجودہ الجھنیں ، کرب ، مایوسی ، بے حقوقی ، ذلت و خواری ، شدید ترین ڈپریشن ، خود سے ناراضگی ، خود سے شرمندگی ، بے عزتی کا تعلق ہر گز ہر گز آج سے نہیں ہے ان سارے عذابوں نے اس وقت جنم لے لیا تھا جب ہماری بزرگوں نے اپنی خوشحالی ، حقوق اور عزت کی جنگ جیتے بغیر ادھوری چھوڑ دی تھی ۔ عین فیصلہ کن موڑ پر ترک کر دی تھی ۔ بغیر مزاحمت سب کچھ استحصالی قوتوں اور لٹیروں اور غاصبوں کے حوالے کر دیا تھا ۔

تمام حقوق ، عزتیں ، خوشحالی سے دستبردار ہوگئے تھے۔ اپنے سارے خواب ان کے حوالے کر دیے تھے۔ نتیجے میں ہماری تین نسلیں برباد ہوگئیں ، ذلت ، غربت ، افلاس، جہالت، انتہا پسندی ، گالیاں ، بدحالی مقدر بن کے رہ گئیں۔ چلی کا عظیم نوبل انعام یافتہ رائٹرPablo Nerudo لکھتا ہے ’’ مرنا ایک عمل ہے اور اس کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب آپ سفر نہیں کرتے ،کتابیں پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں جب آپ زندگی سے بھر پور آوازیں نہیں سنتے ، خود کو سراہنا چھوڑ دیتے ہیں۔

آپ مرنے لگتے ہیں جب آپ اپنی عزت نفس کو مار دیتے ہیں جب آپ دوسروں سے مدد لینا اپنی انا کی توہین سمجھتے ہیں جب آپ اپنی عادت کے غلام بن جاتے ہیں اور ہر روز ایک ہی روٹین پر چلتے ہیں۔ اپنا معمول نہیں بدلتے ۔ مختلف رنگوں کے کپڑے نہیں پہنتے ، اجنبیوں سے گفتگو نہیں کرتے۔ آپ مرنے لگتے ہیں جب آپ جذبات کی گرمی محسوس نہیں کرتے اور آپ میں ہلچل نہیں ہوتی ان احساسات کی جن سے آنکھیں نم ہوجاتی ہیں اور حرکت قلب تیز ہوجاتی ہے۔

آپ مرنے لگتے ہیں جب انجانے خطرات سے بچتے ہیں خوابوں کا پیچھا نہیں کرتے۔ جب آپ عشق اور اس کی ہنگامہ خیزیوں سے جان چھڑاتے ہیں اور ان لوگوں سے ، جنھیں دیکھ کر تمہاری آنکھیں چمک اٹھتی ہیں اور دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگتی ہے ۔

خطرہ مول لو، منطق سے بھاگو ، خوابوں کی تلاش میں نکلو ، خوش رہو، اورکبھی بھی خود کو قطرہ قطرہ مرنے نہ دو۔ یاد رکھو زندگی ایک انمول اور بہت ہی قیمتی شے ہے ’’ فرانس کا عظیم ترین ادیب وکٹر ہیوگو نے کہا تھا ’’ ایک بد صورت جسم میں زندگی گذارنا ایک بد صورت روح میں زندگی گذارنے سے ہزار درجہ بہتر ہے جس کے سنگ تم ایسے ہوجاؤ گے جیسے چلتی پھرتی لاش ہو ‘‘ دراصل انسان اس وقت مکمل نا کامی سے دو چار ہوجاتا ہے ۔ جب وہ اپنے اصل مقصد سے ہٹ جاتا ہے ، سمجھو تہ کر لیتا ہے۔

تھوڑے پر ہی راضی ہوجاتا ہے ۔ وہ ایسا اس وقت کرتا ہے جب وہ اپنی جنگ میں کامیابی پر مشکوک ہوتا ہے ۔ اسے لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اپنے بچے کھچے سے بھی محروم ہوجاؤں اور یہ ہی وہ موڑ ہوتا ہے جہاں وہ سب کچھ ہی ہار جاتا ہے ۔

سب کچھ ہی اسے چھین لیا جاتا ہے ۔ پھر اس کے بعد اس کے خواب ، نظریات ، سپنے ، خواہشیں غرض اس کی سوچیں تک اس کے خلاف ہو جاتی ہیں اس کی بنا پر پھر وہ سماج سے کٹ کر تنہائی اور مایوسی میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ اس کا احساس بزدلی اور احساس شرمندگی اس کو سماج سے جکڑ ے رہنے کی مذمت کرتا رہتا ہے اپنے احساس ، بزدلی اور شرمندگی کی وجہ سے وہ دوسروں کو بھی اپنے ہی جیسا دیکھنے کا آرزو مند اور خواہش مند رہتا ہے۔ اس وجہ سے وہ بزدلی ، کمزوری اور خوف کے جراثیم اپنے گھر والوں ، دوستوں اور ساتھیوں میں منتقل کرنے کی سعی کرتا رہتا ہے ، تاکہ خود کو شرمندگی سے بچایا جاسکے۔

کیونکہ اپنے آپ سے شرمندہ ہونے سے بڑی بے عزتی کوئی اور نہیں ہوتی ہے۔ فرانس کی نامور ناول نگا ر Anais Nin لکھتی ہے ’’ مجھے یاد ہے میں جب گیارہ سال کی تھی میں نے اپنی زندگی کے بارے میں ایک ڈرامہ لکھا تھا جس کا انجام بڑا غیر متوقع تھا۔ ڈرامے کا موضوع ایک اندھا باپ اور اس کی بہت چاہنے والی بیٹی اور پھر ان کی ناقابل برداشت مفلسی کا حصار واند مال تھا مگر وہ لڑکی ہمیشہ اس غربت ، اس تنگی اور تاریکی کو خوبصورت منظروں ، باغوں اور ماحول کے بیان کے حوالے سے اپنے اندھے باپ کے لیے طلسم باندھا کرتی تھی پھر کیا ہو ا ، ایک ڈاکٹر آیا اس نے باپ کا آپریشن کیا ا س کی بینائی واپس آگئی مگر المیہ یہ ہوا کہ جوکچھ وہ سنتا رہا تھا ۔

اس کے بر عکس مفلسی و لاچاری کی وسعتیں اس کے آنگن میں پھیلی ہوئی تھیں وہ یہ دیکھ کر رویا نہیں ، بے ہوش نہیں ہوا بلکہ اس نے اپنی بیٹی سے کہا ’’ تم نے مجھے جو بتایا اور بتاتی رہیں وہ یہاں مجھے زندگی میں نظر تو نہیں آیا مگر اب ہم اپنی زندگی کو ان ہی خطوط پر استوارکرنے کی کوشش کریں گے تمہارے خوابوں کو حقیقت بنانا ہوگا۔ ‘‘ سائنس دانوں کا نزدیک خواب انسانی زندگی کی ایک بنیادی اور واقعی ضرورت ہیں یہ زندگی کے ستم زدہ راستوں پر چھاؤں بن کر ذہن اور خیال کو زندگی کرنے کا ہنر سکھاتے ہیں۔ یاد رکھو اتنا کھو ج لگاؤکہ آخرکو زنجیر کے ٹوٹے ہوئے سر ے کا پتہ چلا لو۔ دوبارہ آغاز کرنے میں دیر نہیں لگانی چاہیے ۔

دوسری طرف جو خواب ہمارے بڑوں نے استحصالی قوتوں کے حوالے چپ چاپ کردیے تھے ایک بار سے واپس آئیں انھیں دوبارہ اپنی آنکھوں میں سجا لیں ، وہ جنگ جو ادھوری چھوڑ دی گئی تھی ، ایک بار وہیں سے دوبارہ اس جنگ کی شروعات کریں جو خوشحالی ، حقوق، عزت ، سکون کے لیے لڑی جارہی تھی ، جو جنگ یورپ ، امریکا ، برطانیہ ، روس ، چین کے عوام نے لڑی اور جیتیں ، وہ ہی جنگ ہم بھی لڑ سکتے ہیں اور جیت سکتے ہیں اور ان سے بہتر انداز میں جیت سکتے ہیں ہمیں یہ جنگ اپنے لیے ، اپنے پیاروں کے لیے اور اپنے بچوں کے لیے لازماً لڑنا ہی پڑے گی جو بے عزتی ، بھوک ، غربت ، افلاس، جہالت ، بے حقوقی ، بے سکونی ہم نے سالوں تک سہی ہے کسی بھی صورت میں ہمارے بچے نہ سہیں۔

وہ ہمارا ذکر فخر کے ساتھ کریں نہ کریں شرمندگی کے ساتھ ۔ اب لٹیروں ، غاصبوں سے اپنی خوشحالی ، حقوق ، عزت اور سکون چھیننا ہی ہونگے۔ نامور مصنفہ ایگنی تھامس نے کہا تھا ’’ تمہارے پاس آواز ہونے کا کیا فائدہ۔ جب تم اس وقت خاموش رہتے ہو جب تمہیں نہیں رہنا چاہیے۔‘‘

بشکریہ ایکسپرس