209

کمان کی تبدیلی……(4)

جنرل مشرف اپنی تعیناتی کے متعلق رقمطراز ہیں کہ جیسے ہی میری گاڑی اسلام آباد میں داخل ہو رہی تھی مجھے ایک ٹیلیفون اپنے دوست بریگیڈیئر اعجاز شاہ کا آیا جو اس وقت لاہور میں آئی ایس آئی کے ایک شعبے کے نگران تھے۔ ’’مبارک ہو آپ چیف بنائے جا رہے ہیں‘‘ انہوں نے کہا‘ ’’یہ کیا بکواس ہے‘‘میں نے کہا ’’کرامت کی مدت ملازمت ابھی ختم نہیں ہوئی۔میں چیف کیسے بن سکتا ہوں۔ ’’چیف نے استعفیٰ دیدیا ہے‘‘ میرے دوست نے کہا ’’یہ خبر چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ دماغ نے ایک دم قدغن لگائی اور مجھے چند ماہ قبل جی ایچ کیو میں ہونے والی کور کمانڈر کانفرنس یاد آ گئی۔جس میں جنرل جہانگیر کرامت نے بتایا تھا کہ ایک آئینی ترمیم کے ذریعے وزیر اعظم نواز شریف نے صدر کے قومی اسمبلی کو ختم کرنے اور حکومت کو برطرف کرنے کا اختیار چھین لیا ہے نواز شریف نے اپنے لئے یہ بھی اختیار حاصل کر لیا تھا کہ جس کے تحت وہ تینوں افواج کے چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس اسٹاف کمیٹی کے سربراہوں کو بھی مقرر کر سکیں گے۔جنرل مشرف لکھتے ہیں کہ مجھے یاد ہے یہ سن کر لیفٹیننٹ جنرل علی قلی خان کا رنگ فق ہو گیا تھا۔وہ صدر فاروق لغاری کے دوست تھے اور یہ تقریباً طے شدہ بات تھی کہ اگلے چیف وہی بنیں گے۔لیکن نواز شریف کو اگر یہ فیصلہ کرنا تھا تو میدان ایک بار صاف تھا۔جب میں وزیر اعظم کے دفتر میں داخل ہوا تو میرے خیالات ایک حد تک منتشر تھے نواز شریف ایک صوفے پر بیٹھے تھے اور فاتحانہ مسکراہٹ ان کے چہرے پر تھی انہوں نے مجھے بتایا کہ چیف آف آرمی اسٹاف نے استعفی دیدیا ہے اور انہوں نے ان کی جگہ میرا تقرر کر دیا ہے میں نے ان سے پوچھا کہ ’’کیا ہوا تھا‘‘ ’’میں نے ان سے استعفیٰ مانگا اور انہوں نے دیدیا ’’وزیر اعظم نے کہا مجھے دھچکا سا لگا۔میں نے وزیر اعظم کا مجھ پر اعتماد کرنے کا شکریہ ادا کیا۔میرے کندھوں پر میرے لئے نئے عہدے کے بیج لگاتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ’’تمہارا انتخاب کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ تم واحد لیفٹیننٹ جنرل ہو جس نے کبھی اس عہدے کے لئے مجھ سے بالواسطہ یا بلاواسطہ رجوع نہیں کیا میں نے وزیر اعظم کو سلامی دی اور وہاں سے چلا آیا‘‘ جنرل جہانگیر کرامت کے دور میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور صدر فاروق لغاری کے وزیر اعظم نواز شریف کے اختلافات پھر عدالت عظمیٰ پر حملے کا واقعہ میں جہاں جہانگیر کرامت نے اپنا وزن نواز شریف کے حق میں ڈالا وہاں مشاورت کے درمیان جنرل علی قلی خان نے چیف کو مشورہ دیا تھا کہ ایسی صورتحال میں مارشل لاء لگا دیا جائے یا پھر صدر اور وزیر اعظم کو ایک ساتھ گھر بھیجا جائے جبکہ اس وقت جنرل پرویز مشرف کا نقطہ نظر جنرل علی قلی خان سے بالکل مختلف تھا۔مشرف کا کہنا تھا کہ نواز شریف عوام کے منتخب نمائندے ہیں اور اگر جمہوریت اس ملک میں چلنی ہے تو انہیں مدت پوری کرنی چاہیے جنرل مشرف کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنی بات مدلل انداز میں کرتے تھے۔ ذرا پیچھے جائیں تو یہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ آصف نواز جنجوعہ کے دور میں بھی ان کے وزیر اعظم نواز شریف سے اختلافات موجود تھے اور بعض باخبر لوگوں کا خیال تھا کہ آصف نواز جنجوعہ سے زندگی وفا کرتی تو شاید ملک میں اس وقت بھی مارشل لاء لگنے کا امکان موجود تھا ۔نواز شریف نے پرویز مشرف کو اس اعتماد سے چیف لگایا تھا کہ وہ ان کے ساتھ بھرپور تعاون کے ساتھ چلیں گے لیکن کارگل کے واقعہ نے اعتماد کی دیوار میں سے بہت سی اینٹیں سرکا دی تھیں اور 12اکتوبر 1999ء کی شام جنرل مشرف کو ہٹانے کی کوشش کے بعد فوجی کمانڈرز کے ردعمل کے بعد نواز شریف کا اقتدار ختم ہو گیا ۔مشرف نے ایک طویل عرصے تک بلا غیرے شرکت ملک پر حکومت کی کسی اور فوجی حکمران کی طرح زندگی کے متعدد شعبوں میں نت نئے تجربات کئے۔پھر ان سے عدلیہ کے بابت غیر معمولی فیصلوں نے ایک ایسے بھنور میں پھنسا دیا کہ ان کا اقتدار ڈگمگانے لگا۔اپنے بہت ہی قابل اعتماد ساتھی جنرل کیانی کو اپنی اسٹک تھمانے کی دیر تھی کہ اختیار و اقتدار کا کھیل ان کے ہاتھ سے نکلتا دکھائی دیا ۔بے نظیر بھٹو کی شہادت نے پیپلز پارٹی کے لئے ہمدردی کی لہر نواز شریف کی واپسی اور 2008ء کے انتخابات کے نتائج مشرف کے قدموں کے نیچے سے قالین کھینچ لیا۔جنرل کیانی اپنے پیش رو کے برخلاف ذرا تحمل اور صبر والے انسان تھے، مہم جوئی سے ذرا دور رہنے والے سپہ سالار تھے ۔دوسری طرف آصف علی زرداری جیسا زیرک سیاسی صدر تھا ان دونوں نے ایک دوسرے کو نبھایا۔کئی مراحل آئے لیکن زرداری صاحب کو جنرل کیانی کے مابین ایک خاموش انڈر اسٹیڈنگ موجود تھی کئی نشیب و فراز آئے نواز شریف کا عدلیہ کے لئے لانگ مارچ جیسا چیلنج بھی احسن طریقے سے حل کر لیا گیا اور یہی وجہ تھی کہ زرداری صاحب نے اپنی حکومت کے نہ صرف پانچ سال مکمل کر لئے بلکہ اپنی پارٹی کو مجتمع رکھا اور اس خلاء کو بھی پر کر لیا جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے پیدا ہوا تھا۔ جنرل کیانی کو مدت ملازمت میں توسیع بھی دیدی گئی۔اگلی باری نواز شریف کی تھی نواز شریف اپنے ذہنی میلان کے تحت فوج سے اچھے تعلقات کے خواہاں ضرور تھے لیکن وہ چاہتے تھے کہ آخری بار ان کی مانی جائے ان کا یہ دور خاصا بہتر تھا ملک ترقی کی طرف گامزن تھا ملک میں توانائی سیکٹر اور مواصلات کے شعبے میں قابل قدر کام کیا گیا ۔نواز شریف ہمیشہ ایک لبرل سوچ کے مالک رہے۔ بھٹو اور عمران خاں کی طرح وہ بھی ضدی واقع ہوئے ہیں۔ جنرل کیانی کے بعد ان کی نظر انتخاب جنرل راحیل شریف پر پڑی جنرل راحیل شریف ایک زبردست عسکری شہرت کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔میجر شبیر شہید نشان حیدر ان کے بھائی اور میجر راجہ عزیز بھٹی ان کے ماموں تھے۔ وہ بھی ایک زبردست پروفیشنل سولجر تھے بظاہر ان کا امیج ایک سخت گیر اور اپنی بات منوانے والے جنرل کا تھا۔ آرمی پبلک سکول میں 250بچوں کی شہادت کا واقعہ ان کے دور میں ہوا۔ جس ن ملک کے طول و عرض میں دہشت گردوں کے خلاف غصے اور اس واقعہ پر ایک صف ماتم بچھ گئی جس نے پاکستان کے با اختیار حلقوں کو کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔نئی صف بندیاں اور سخت فیصلے کئے گئے جنرل راحیل شریف اپنے 3سالہ دور میں خاصے ایکٹو رہے لیکن جب ان کی مدت ملازت پوری ہوئی تو ان کی خواہش اور مختلف قسم کے دبائو اور اثرورسوخ کے نواز شریف نے انہیں توسیع دینے سے انکار کر دیا یہاں تک کہ شہباز شریف اور نواز شریف کے قریبی ساتھیوں جب اس توسیع کی سفارش کی تو نواز شریف نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر آپ توسیع دینا چاہتے ہیں تو میری جگہ وزیر اعظم بن جائیں ۔راحیل شریف کے جانشین کے طور پر جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام بھی بعض حلقوں کے لئے چونکا دینے والا تھا۔(جاری ہے)

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز