149

کمان کی تبدیل…3

جنرل بیگ کے دور میں بے نظیر بھٹو انتخابات کے نتیجہ میں برسر اقتدار آئیں اور پھر بعد میں صدر غلام اسحق نے اپنے اختیار 58-2Bکو استعمال کرتے ہوئے ان کی حکومت کو برخواست کر دیا ۔1990ء کے انتخابات میں نواز شریف وزیر اعظم بن گئے اور جب جنرل بیگ کے ریٹائرمنٹ کا وقت آیا تو چیف آف آرمی اسٹاف کی تعیناتی صدر مملکت کا اختیار تھا، صدر غلام اسحق نے وقت سے کافی پہلے ہی جنرل آصف نواز کو آرمی چیف کے طور پر نامزد کر دیا، ظاہر ہے اگر یہ اختیار آج کی طرح وزیر اعظم کے پاس ہوتا تو شاید یہ قرعہ جنرل آصف نواز کے نام نہ نکلتا۔لیکن زندگی نے جنرل آصف نواز کے ساتھ وفا نہ کی ان کی اچانک وفات کے بعد پھر نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا مرحلہ آیا، تو اس وقت وزیر اعظم ایک ایسے نام پر متفق نہیں تھے، جسے صدر مملکت تعینات کرنا چاہتے تھے ،اس دور میں یہاں تک اطلاعات آئیں کہ وزیر اعظم نے صدر پاکستان کو یہ پیغام دیدیا تھا کہ اگر آپ نے انہی جنرل صاحب کو آرمی چیف تعینات کیا تو وہ استعفیٰ دیدیں گے، صدر صاحب پیچھے ہٹ گئے اور کافی سوچ بچار کے بعد یہ قرعہ کوئٹہ کے کور کمانڈر جنرل عبدالوحید کاکڑ کے نام نکلا، جنرل کاکڑ پروفیشنل اور اپ رائٹ فوجی سربراہ تھے ان کی شہرت دو وجہ سے ہوئی ایک انہوں نے اس وقت مداخلت کی جب نواز شریف کے پہلے دور میں وزیر اعظم اور صدر مملکت غلام اسحق خاں کے مابین باہم اختلافات اور کشمکش اپنے عروج پر پہنچ گئے، اس سے قبل نواز شریف نے قوم کے نام اپنے خطاب میں ایوان صدر کو سازشوں کی آماجگاہ اور دیگر یہ اعلان کیا کہ وہ کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے صدر نے دوسرے دن اپنا 58-2Bکا اختیار استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کی حکومت کو برخاست کر دیا ،نوازشریف سپریم کورٹ چلے گئے ۔جسٹس نسیم حسن شاہ کی سرکردگی میں سپریم کورٹ نے تمام دلائل سننے کے بعد فیصلے میں نواز شریف کی حکومت کو بحال کر دیا، نواز شریف ہر قیمت پر صدر غلام اسحق خان کو اقتدار سے الگ کرنا چاہتے تھے، اس سلسلے میں انہوں نے قومی اسمبلی اور سینٹ کا اجلاس طلب کر کے اس کے ذریعے صدر مملکت کے مواخذے کی کوشش کی، جب معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ گئے تو جنرل وحید کاکڑر اور دو دیگر اعلیٰ آفیسران ایوان صدر پہنچے، انہوں نے صدر اور وزیر اعظم نواز شریف سے کہا کہ آپ کی باہمی چپقلش نے صورتحال کو اتنا خراب کر دیا ہے، اب اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ آپ دونوں مستعفی ہو جائیں اور نئے انتخابات کال کر دیے جائیں، جو ایک عبوری حکومت منعقد کرائے ،یہ پہلی بار ہوا کہ صدر اور وزیر اعظم ایک ہی وقت میں اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے، جنرل کاکڑ کے بابت یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے انہیں اگلی تین سالہ مدت کے لئے توسیع دینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن انہوں نے شکریہ کے ساتھ بے نظیر بھٹو کی اس پیشکش پر اپنی طرف سے معذرت کر لی تھی، جنرل عبدالوحید کاکڑ کے متعلق یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ جب نواز شریف کے پہلے دور میں بے نظیر بھٹو نے ان کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا تو بے نظیر بھٹو کو پورے احتمام کے ساتھ خصوصی طیارے سے لاہور سے راولپنڈی بلایا گیا، محترمہ کو جی ایچ کیو لے جایا گیا پھر جنرل وحید کاکڑ نے ان سے کہا کہ اگر آپ اپنے لانگ مارچ کو ملتوی کر دیں، تو یہ ایک قابل ستائش اقدام ہو گا۔ بے نظیر بھٹو نے کم گو فوجی جنرل سے کہا کہ کیا میں ایک ٹیلیفون کر سکتی ہوں۔ جنرل کاکڑ نے اپنا ایک گرائونڈ فون بے نظیر بھٹو کی طرف بڑھا دیا۔بے نظیر نے ٹیلیفون کے دوسری طرف جس شخص کو یہ ہدایت کی کہ لانگ مارچ ملتوی کر دیا جائے، بے نظیر سے یہ ہدایت لینے والے شخص سلمان تاثیر تھے۔اس کے بعد بے نظیر بھٹو نے جنرل کی طرف دیکھ کر کہا ہم نے آپ کی بات مان لی ،اس پر سپہ سالار نے بلا تذبذب کہا۔ہم آپ کی قدر کرتے ہیں، جنرل وحید کاکڑ کے بعد سنیارٹی میں سب سے زیادہ سینئر جنرل جہانگیر کرامت کو خود جنرل کاکڑ کی سفارش پر فوج کا سپہ سالار تعینات کر دیا لیکن نواز شریف کے دوسرے دور میں اس وقت جب جنرل جہانگیر کرامت نے پاکستان کے اہم امور پر فوج کی مشاورت کی ضرورت پر بات کی تو وزیر اعظم نے ان سے استعفیٰ طلب کر لیا اور فیکس کے ذریعے یہ استعفیٰ وزیر اعظم سیکرٹریٹ بھجوا دیا گیا، اس کے بعد کیا ہوا یہ خود جنرل مشرف کی زبان سے سنئے۔ 7ا کتوبر 1998ء کی شب کھانے کے بعد میں اور میری بیوی منگلا میں اپنے گھر میں ٹیلیویژن دیکھ رہے تھے مجھے ایک ٹیلیفون آیا کہ وزیر اعظم نواز شریف مجھ سے ملنا چاہتے ہیں، میں نے کہا کہ میں کل صبح آ جائوں گا وزیر اعظم کے ملٹری سیکرٹری نے اصرار کیا۔ ’’نہیں سر وہ آپ سے جلدازجلد اور ابھی ملنا چاہتے ہیں، آج رات کو ہی‘‘ میں چونکا کیونکہ عموماً وزیر اعظم ایک لیفٹیننٹ جنرل کو نہیں بلاتے اور وہ بھی رات کو جبکہ کسی بھی گتھی کو سلجھانے کے لئے آرمی چیف قریب ہی دستیاب ہے۔ ’’نہیں‘‘ ملٹری سیکرٹری نے کہا ’’یہ انتہائی خفیہ ہے آپ کسی کو بتائے بغیر ہی آئیں۔ مجھے احساس ہوا کہ کوئی غیر معمولی واقعہ ظہور پذیر ہونے والا ہے، میں نے پوچھا ’’مجھے کس وجہ سے بلایا جارہا ہے‘‘ ’’سر یہاں پہنچنے کے بعد آپ کو خود ہی معلوم ہو جائے گا بس چیف سے بات نہ کریں‘‘ ’توکیا میں باوردی آئوں‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’جی ہاں بس آپ جتنی جلد آ سکتے ہیں آ جائیں‘‘جواب ملا میں نے وردی پہنی ملٹری پولیس کا حفاظتی دستہ بلایا۔احتیاطً اپنی 17glockپستول باندھا اور اسلام آباد کے لئے روانہ ہو گیا۔ (جاری ہے)

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز