75

ادب، عقائد اور عکسی مفتی

ادب کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اس لئے کہ انسانی قدروں میں اشتراک پایا جاتا ہے۔ شاعری، افسانہ، ناول یا اظہار کی کوئی بھی صورت ہو وہ عالمگیر تاثیر کی حامل ہوتی ہے۔ انسانی قدریں وہ بنیادی عناصر ہیں جو ادب کو آفاقی رنگ بخشتی ہیں۔ جن کے باعث کسی بھی خطے یا براعظم میں رہنے والا فرد کسی اور سرزمین یا براعظم کے ادب سے گہری جڑت محسوس کرتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ادب احساسات اور روح کی آواز ہے تو بے جا نہ ہو گا اور یقینا احساسات اور روح کی سرشاری و رنجیدگی ہر انسان کی میراث ہے۔ جب ہم روحانی عنصر کی بات کرتے ہیں تو اس میں عقائد اور مذاہب کا بھی عمل دخل شامل ہو جاتا ہے۔ ادب میں عقائد کو اس طرح سمونا کہ ادبی حیثیت متاثر نہ ہو کوئی آسان کام نہیں۔ کئی بار مذہبی رنگ اتنا حاوی ہو جاتا ہے کہ ادبی مضمون وعظ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن بڑے ادیب کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ ادب کے کینوس پر بکھرے مختلف رنگوں کو اس قرینے سے سمیٹتا ہے کہ بہت خوبصورت تصویر ظہور پذیر ہوتی ہے جو آنکھوں کو بھلی لگتی ہے اور دل میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔

ممتاز مفتی ہمارے ادبی منظرنامے کی وہ قد آور شخصیت ہیں جنہوں نے روحانی موضوعات کو نثر میں اس ڈھنگ سے سمویا کہ اپنے فن پارے کو ہر دل کی دہلیز تک لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ ’الکھ نگری‘ ہو یا ’لبیک‘ اُن میں ادبی چاشنی بھی ہے اور مذہبی و روحانی رنگ بھی۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان کے بعد ان کا بیٹا اظہار کے نئے جہان تلاشنے میں یوں کامیاب ہو گا۔ عکسی مفتی جن کی ثقافتی حوالے سے گراں قدر خدمات ہیں نے ادبی میدان میں بھی کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں۔ انہوں نے اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان کو اظہار کا ذریعہ بنایا اور جو دو بڑی کتب تصنیف کیں وہ ’اللہ‘ اور ’محمد‘ ہیں۔ اگر ان کی نئی تصنیف ’محمدؐ دورِ جدید میں‘ پر بات کی جائے تو یہ ایک ایسی خوبصورت کتاب ہے جس کی دلآویزی کے کئی اسباب ہیں جن کے باعث یہ قاری کی توجہ اور دلچسپی کا باعث بننے کی شدید صلاحیت رکھتی ہے۔ حضرت محمد ﷺ پر

مسلمان مصنفین نے ہر زبان میں بے شمار کتب تحریر کی ہیں حتیٰ کہ غیر مسلم مصنفین نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا اور حضور ﷺ کی عظمت کا دلکش پیرائے میں اعتراف کیا۔ انگریزی زبان میں لکھی گئی اور ترجمہ کی گئی کتابوں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے لیکن ان سب میں عکسی مفتی کی ’محمدؐ دورِ جدید میں‘ خاص انفرادیت کی حامل ہے۔ پیش لفظ میں مشرق اور مغرب میں طرزِ معاشرت، ثقافت اور رویوں کے فرق کے ساتھ ساتھ وحدت الوجود اور نظریۂ ارتقاء کی ایسی خوبصورت بحث موجود ہے کہ ایک سطر بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ مختلف عنوانات میں حضرت محمد ﷺ کی ولادت، پرورش، قبائل کا تہذیبی تصادم، قبیلہ قریش، تصورِ توحید، صحرائے عرب میں دستورِ زندگی، انسانی معاشرے کا ارتقاء، معجزات، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی کہانی، نمرود کا ظلم و تشدد، خدا کا گھر کعبہ، وجدان، مراقبہ، ارتکاز، لادینیت، وحی اترنے کے بعد مکے کی صورت حال، حضرت محمد ﷺکا پیش کردہ سماجی نظام، مدینہ میں آمد اور قیام، مساجد کی تعمیر، صلح حدیبیہ، عورتوں کے حقوق، قرآن، فقہ، سائنس اور مذہب، پیغام اور پیغمبر، جنگیں، نبی کریم ﷺ کی دیگر مذاہب کے حکمرانوں کے ساتھ خط و کتابت اور رویہ، محمد ﷺ اور مقامی ثقافت، عرب میں شادیوں کی روایات، دیگر ثقافتوں میں شادیاں، احادیث، اقوال اور سنت، چار امام، اہل بیت، حضرت حسین علیہ السلام کی اہمیت، حضرت زینبؓ کی کہانی اور انسانی حقوق وغیرہ شامل ہیں۔ سیرت کی دیگر کتب اور اس میں فرق یہ ہے کہ عکسی مفتی نے حضرت محمد ﷺ کی زندگی کے تمام ادوار اور حالات و واقعات کو جدید دور کی عینک سے دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ہر واقعے اور عمل کے ساتھ جڑی ہوئی منطقی اور سائنسی وجوہات کو نمایاں کیا ہے۔ عقائد کو صرف احترام تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کی افادیت اور عالمگیریت کو اجاگر کیا ہے۔ وہ تمام سوال جو مختلف فرقوں اور مذاہب کے لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں جنم لیتے رہتے ہیں ان کے جواب بھی اس میں موجود ہیں اور کافی وضاحت کے ساتھ ان کی تشریح کی گئی ہے۔ اسلام دینِ فطرت یعنی ہر دور کا مذہب ہے۔ اس کے اصول آفاقی اور اٹل ہیں۔ اس کی وسعت اور دائرۂ کار کا یہ عالم ہے کہ ہر دور کے انسانوں کی رہنمائی کا علمبردار ہے۔ قرآن اور سنت کو گہرائی سے سمجھا جائے تو ہر زمانے کے سوالوں اور مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے اور یہی عکسی مفتی کی فکر کا نچوڑ ہے۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم