سب سے پہلے تو نوجوان گھر بار، ملازمت اور کاروبار چھوڑ کر کی جانے والی سیاست کے نامعلوم شہید بننے کے رومانس سے نکلیں۔ یقین جانیں پاکستان کے موجودہ جمہوری نظام میں اگر کوئی تبدیلی آپ لاسکتے ہیں تو وہ صرف آپ کے ووٹ سے ہوگی۔
سب سے پہلے تو نوجوان گھر بار، ملازمت اور کاروبار چھوڑ کر کی جانے والی سیاست کے نامعلوم شہید بننے کے رومانس سے نکلیں۔ یقین جانیں پاکستان کے موجودہ جمہوری نظام میں اگر کوئی تبدیلی آپ لاسکتے ہیں تو وہ صرف آپ کے ووٹ سے ہوگی۔
پاکستانی نوجوانوں کی زندگی کا یہ دور وہ ہے جب ان کو اپنے وقت کا زیادہ حصہ اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے اضافے میں لگانا چاہیے، کجا کہ وہ وقت عجیب الجھنوں میں صرف ہو رہا ہے (اے ایف پی)
گئے دنوں میں جنوبی ایشیائی ممالک کا خاندانی نظام ایسا تھا کہ ایک کماتا تھا اور پورا کنبہ نہ صرف کھاتا تھا بلکہ مہمان داری بھی خوب ہوا کرتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ پاکستان کا معاشرتی نظام جدت، وقت اور ضرورت کے تحت بدلتا گیا۔ یہاں تک کہ چار کمانے والے بھائیوں کے گھر بھی الگ ہوگئے ہیں، ان کی حاجتیں، خرچے اور مسئلے سب الگ۔
اب وہ عیاشی کے زمانے نہیں کہ لمبے چوڑے کنبے کا ایک لڑکا کسی سیاسی جماعت کا کارکن بن گیا، کئی کئی ہفتوں تک لانگ مارچ اور سیاسی جلسوں کے نام پر غائب ہوگیا تو پیچھے گھر کی ذمہ داری کوئی اور سنبھال لے گا۔
پاکستان کی غالب آبادی نوجوانوں پہ مشتمل ہے، اس وقت جبکہ پاکستان ہمیشہ کی طرح نازک صورت حال سے گزر رہا ہے، یہ نوجوان اپنا کاروبار جمانے، مزید آگے پڑھنے یا کیریئر بنانے کے ابتدائی دور سے گزر رہے ہیں۔
کبھی کسی فیصلہ ساز نے سوچا ہے کہ یہ سیاسی ہلچل جو پچھلے چھ سات برسوں سے مسلسل مچے جارہی ہے اس نے ان نوجوانوں پر کیا اثر ڈالا ہوگا؟
پاکستانی نوجوانوں کی زندگی کا یہ دور وہ ہے جب ان کو اپنے وقت کا زیادہ حصہ اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے اضافے میں لگانا چاہیے، کجا کہ وہ وقت عجیب الجھنوں میں صرف ہو رہا ہے۔
بے شک جمہوری تحریک کا حصہ بننا، یونین بازی میں شریک ہونا، اپنی سیاسی سرگرمی کرنا ان نوجوانوں کا حق ہے لیکن کیا یہ بھی درست ہے کہ صبح و شام سیاست، جنوری تا دسمبر سیاست؟
لیڈر اتنے اعتماد سے عوام کو گھڑی گھڑی سڑکوں پر نکلنے کی کال دیتے ہیں جیسے انہیں یقین ہے کہ یہ سارے گھروں میں فارغ بیٹھے ہیں۔ جب دل چاہا احتجاج کی کال واپس لے لی، جب دل کیا پھر چوک چوراہوں پر نکلنے کا اشارہ آگیا۔
یوتھ نے کبھی سوچا کہ آخر ان میں اور حکمران اشرافیہ میں کیا فرق ہے؟ کیوں ہم اس لامتناہی گول دائرے سے باہر نہیں نکل پا رہے؟ کیوں اقتدار محض چند خانوادوں کی وراثت کا کھیل ہے؟
کیوں کہ جس وقت ان کے گھر کی یوتھ مطلب نوجوان بیرون ملک یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہوتے ہیں، اس وقت عام پاکستانی کا نوجوان بیٹا اسی سیاسی لیڈر کی کارنر میٹنگ کے لیے کرسیاں سیدھی کر رہا ہوتا ہے۔
سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کچھ دن قبل ایک تقریب میں بہت بے باک انداز میں اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ پاکستان کی اشرافیہ ان ایک فیصد پاکستانیوں پر مبنی ہے جنہیں بچپن سے جوانی تک تعلیم کے لیے اعلیٰ ترین ذرائع میسر ہیں۔ اس اشرافیہ میں پاکستان کی بزنس کمیونٹی، سیاست دان، فوج اور بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران اور زمیندار شامل ہیں۔
باقی کے 99 فیصد پاکستانیوں میں جتنے نوجوانوں ہیں وہ اس ایک فیصد کی کمپنیوں اور ان کی سیاسی جماعتوں کا ایندھن ہیں۔
تو سوال یہ ہے نوجوان کیا کریں؟
سب سے پہلے تو نوجوان گھر بار، ملازمت اور کاروبار چھوڑ کر کی جانے والی سیاست کے نامعلوم شہید بننے کے رومانس سے نکلیں۔ یقین جانیں پاکستان کے موجودہ جمہوری نظام میں اگر کوئی تبدیلی آپ لاسکتے ہیں تو وہ صرف آپ کے ووٹ سے ہوگی۔ باقی پارٹی ترانوں پر لہرانے کا جی چاہے تو الیکشن سے قبل سیاسی جماعتوں کے منشور، لیڈر کو جانچ کر وہ بھی کرسکتے ہیں۔
یہ تو طے ہے کہ اب امریکن یا برٹش سکول سسٹم سے پڑھنے کا وقت تو نکل گیا، پیلے سکول اور سرکاری جامعات سے پڑھ کر نکلنے والوں کی اپنی حدود ہوتی ہیں، اس لیے اپنی حدود کو مزید بڑھانے، صلاحتیوں کو نکھارنے یا نئی صلاحیتیں سیکھنے کے لیے آن لائن مفت کورسز کریں۔
اپنی انگریزی بولنے کی سکل پہ کام کریں۔ آن لائن کوئی ہنر سیکھ لیں۔ پاکستان کے لڑکے لڑکیاں ٹیکنالوجی میں بہت متحرک ہیں اور عالمی آئی ٹی انڈسٹری بھی ہمارے نوجوانوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے۔ کراچی میں میں ایسے کئی خاندانوں کو جانتی ہوں جن کے کسی ایک بیٹے نے پروگرامنگ کا کورس کیا اور بین الاقوامی کمپنیوں میں آن لائن نوکری لگ گئی، پورے خاندان کے دن بدل گئے۔
یقین کریں سیاسی، عسکری یا موروثی اشرافیہ آپ کے گھر میں گھس کر آپ کو قابو نہیں کرتی کہ خبردار جو اگر ترقی کرنے کی جرات بھی کی۔
حکمران طبقے کے پاس چاہے جتنے اختیار آجائیں وہ آپ کے فیصلوں کو اپنی مرضی کا کروانے پر قدرت نہیں رکھتے۔
اگر لندن کے فلیٹوں پر غصہ ہے، لندن نہیں تو کم از کم اسلام آباد میں اپنا فلیٹ لینے کا سوچیں، اگر کسی لیڈر کے بچوں کا لندن میں رہنا کَھلتا ہے تو آپ خود کو اتنا سمارٹ بنانے کا سوچیں کہ آپ خود ان ممالک میں جب دل کرے جائیں، موڈ بنے اور اچھا موقع ملے تو بیرون ملک ملازمت کرنے نکل جائیں۔
اگر آپ وی آئی پی موومنٹ میں پھنس کر گھنٹوں اپنی بائیک پر بیٹھ کر خود کو کوستے ہیں تو پہلے مرحلے میں بائیک سے گاڑی پر آنے اور پھر دوسرے مرحلے میں چھوٹی سے بڑی گاڑی پر منتقل ہونے کا سوچیں۔
بہت سوں کو یہ خیالی باتیں لگیں گی، بہت سے نوجوان انقلاب کا سورج طلوع ہونے کے انتظار میں ہیں، بہت سوں کی امید کا مرکز لندن ہے، بہت سوں کو عسکری قیادت کی تبدیلی میں ایسے دلچسپی ہے جیسے دفاع کے فیصلے اگلا چیف ان سے پوچھ کر لے گا اور بہت سوں نے پاکستان میں لگنے والے رگڑے کو نصیب کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا ہے۔
پاکستانی نوجوان یہ بات پلو سے باندھ لیں، یہ جو کچھ سیاست میں ہو رہا ہے، یہ ان کے آپس کے گیم ہیں، انہیں کھیلنے دیں۔ اگر چاہتے ہیں کہ اس گیم میں آپ کی چلی چال کے مطابق فیصلہ ہو تو پہلے خود کو اس گیم کے قابل بنائیں۔ باقی تالیاں بجانے اور جلسوں میں ناچنے والا کام ہی کرنا تو حقیقی آزادی کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔