نینو ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز دنیا

یہ بات تو طے ہے کہ دور حاضر ٹیکنالوجی کا دور ہے جو ملک جس قدر ٹیکنالوجی کے استعمال میں آگے ہے وہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اب ممالک جدید سے جدید ترین ٹیکنالوجیوںپرتحقیق کر رہے ہیں اور پرانی مشکل ٹیکنالوجیوں کو ان جدید ٹیکنالوجیوں کے ذریعے مزید آسان اور مضبوط ومربوط بنانے کے لئے سر گرداں ہیں۔

جب مواد کا سائز ایک ملی میٹر کے دس لاکھویں حصے تک کم کر دیا جاتا ہے، تو اس کی خصوصیات "نینوا سکیل" (Nanoscale) (نینو میٹر، این ایمNM) میں آنے پر ڈرامائی طور پر تبدیل ہو جاتی ہے اس بنیاد پر جو ٹیکنالوجیاں وجود میں آتی ہیں ان کو نینو ٹیکنالو جی (Nanotechnology) کہا جاتا ہے ۔ نینو ذرات کا ابتدائی مشاہدہ اورحجم کی پیمائش 1925 کے کیمیا میں نوبل انعام یافتہ رچرڈ ایڈولف زیگمنڈی نے کی تھی۔ انہوں نے الٹرا خورد بین کا استعمال کرتے ہوئے تقریباً 10 این ایم کے حجم کے سونے اور دیگر مواد کا مطالعہ کیا اور یہ دریافت کیا کہ نینواسکیل میں کم ہونے پر کچھ مواد نمایاں خصوصیات کا مظاہرہ کرتے ہیں جیساکہ مختلف مراحل پر مواد کی رنگت کا تبدیل ہونا۔ سونا بھی حجم کے مطابق نمایاں خصوصیات کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے جیسے نیلے سبز، سرخ یا جامنی رنگ کا ہو جاتا ہے ۔ تاہم 1980کی دہائی تک اس ٹیکنالوجی کا کوئی استعمال نہیں تھا۔ اس شعبے کی ابتدا 1981 میں اسکیننگ ٹنلنگ خوردبین کی ایجاد کے بعد تیزی سے آگے بڑھی ۔ 1985 میں یہ دریافت ہوا کہ جب گریفائٹ کو لیزر کے ذریعے زیادہ درجہ حرارت پر گرم کیا گیا تو خالص کاربن کے فٹ بال کی طرح کے کچھ سالمے تشکیل پائے ، جن کا نام fullerenes رکھا گیا۔ان اچھوتے سالموں کا بہت زیادہ استعمال صنعت میں ہو رہا ہے اور سرطان کے خلاف سست اخراج والی ادویات اور دیگر نئے مواد کی تیاری میں کافی مفید ثابت ہوا ہے۔

پاکستان میں اس اہم شعبے میں پہلا قومی تحقیقی ادارہ جامعہ کراچی میں لطیف ابراہیم جمال فاؤنڈیشن کی فراخدلانہ مالی امداد سے تیار کیا گیا ۔ پاکستان کے سب سے بڑے تحقیقی ادارے (بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی سائنسز کے اندر واقع لطیف ابراہیم جمال مرکز برائے نینو ٹیکنالوجی تعلیمی شعبے میں سرکاری و نجی شراکت داری کی ایک شاندار مثال ہے۔ اس مرکز میں بالخصوص نینو ادویات سازی کی ترقی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جو ایک جدید اور تیزی سے بڑھتا ہوا شعبہ ہے۔ نینو ادویات انسانی جسم میں نمایاں طور پر بہتر طریقے سے جذب ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور اس وجہ سے بہتر افادیت اور کم مضر اثرات کے ساتھ کم خوراکوں میں استعمال کی جا سکتی ہیں۔ اس میدان کو طبی تصاویر کیلئے بھی استعمال کیا جارہا ہے کیونکہ یہ سرطان کی بافتوں کی بہتر تصاویر فراہم کرتی ہیں۔ مناسب تکنیکی طریقے سے تیارنینو مواد صحت مندخلیوں کو نقصان پہنچائے بغیر بیمار بافتوں تک گرمی، روشنی، ادویات اور دیگر مواد کو پہنچا نے میں کافی ممدو معاون ثابت ہوتےہیں۔

اس کے علاوہ نینو سینسر تیار کیے گئے ہیں جو جانچ سکتے ہیںکہ پودوں کو کب پانی، کھاد اور غذائی اجزا کی ضرورت ہوتی ہے۔اس طرح ضرورت کے وقت پانی اور غذائی اجزا کی ضرورت کے مطابق کم از کم مطلوبہ مقدار فراہم کرنے کے نتیجے میں زیادہ مقدار کے پانی اور غذائی اجزا کےزیاں کو بچایا جاتا ہے اور اس طرح کم پانی و خوراک کی لاگت پر زیادہ سے زیادہ پیداوار کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

نئے مواد کے میدان میں اور بھی بہت سی حیرت انگیز دریافتیں ہو رہی ہیں ۔ ایسےحیرت انگیز "سمجھدار مواد" (Smart Materials) بھی تیار کرلئے گئے ہیں جو اپنی شکل کو یاد رکھ سکتے ہیں! اگر آپ ایسے مواد کو توڑتےیا موڑتے ہیں، تو وہ کچھ دیر بعدخود بخود اپنی اصلی شکل میں بحال ہو جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کل اس طرح کے مواد سے بنی موٹر گاڑیوں میں سفر کر رہے ہوں۔ بالفرض گاڑی کو کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے اور اس کی سطح پر نشانات اور گڑھے پڑ جاتے ہیں تو اگر وہ گاڑی اس مخصوص موادسے بنی ہوگی تو خود بخود اپنی اصل شکل میں بحال ہوجائےگی، کیونکہ ان مخصوص مواد میں اصلی شکل کی یادداشت بھی محفوظ ہوتی ہے۔ اسی طرح ازخود مرمت کرنے والے رنگ (self-healing paint) بھی اب دستیاب ہیں جب اس طرح کے رنگ سے رنگی گئی موٹر گاڑیوں پر خراش پڑتی ہے تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ خراش کے نشان " طلسماتی طور پر" فوراً غائب ہو جاتےہیں۔ایسے نئے سمجھدار مواد (“smart materials”) بھی تیار کر لئے گئے ہیںجو برقی یا مقناطیسی رَو کے جواب میں مختلف شکلیں ("morph") اپنا سکتے ہیں۔ امریکی فوج انہیں طاقتور گولی محفوظ بیرونی ڈھانچوں کی شکل میں استعمال کر رہی ہے جسے روبوٹ نما فوجی لڑائی کے دوران پہن سکتے ہیں۔ اس پہناوے کو سپاہی کی سوچ کی لہروں سے جوڑا جا تا ہے، تاکہ وہ صرف سوچ کے ذریعے حرکت کرسکیں اور فوری رد عمل کا اظہار کر سکیں۔

ایک اور متعلقہ ناقابل یقین دریافت بندوق کی گولی سے محفوظ کاغذ کی ہےجو نینو سیلولوز سے بناہے، یہ کاغذ فولاد سے زیادہ مضبوط ہے ، لہٰذا اس سے ہلکی، جاذب ،گولی سےمحفوظ جیکٹس بنائی جا سکتی ہیں۔ اب نینو مواد کو خلائی جہاز، ہوائی جہاز اور زیادہ دیر تک چلنے والی ہلکے وزن کی بیٹریوں کی تیاری میں بھی استعمال کرنے کے طریقے تلاش کئے جا رہے ہیں۔اسکے علاوہ ایک نیا کاربن مواد، "گرافین" نئے برقی آلات (جیسا کہ موبائل فون کی بیٹریوں) کیلئے بہت مفید ثابت ہورہا ہے۔

نینو مواد کے ذریعے کیڑے جیسے چھوٹے ڈرون کو بھی تیار کیا جاسکتا ہے جنہیں دور سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور جاسوسی کے مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کیمروں اور ساؤنڈ سسٹم سے لیس، انہیں اہم اداروں کے سربراہان کے کمروں کی میزوں یا دیواروں پر نصب کیا جا سکتا ہے اور جو کچھ وہاں ہو رہا ہے وہ میلوں دور واقع غیر ملکی سفارت خانے میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ ان کی تیاری میں چور مواد (stealth materials) استعمال کیا جاتا ہے جو ان کی شناخت کو روکتا ہے۔ یہ جاسوس ڈرون مکھیوں یا دوسرے چھوٹے حشرات کی طرح نظر آتے ہیں اور پتہ لگانے کے معیاری آلات کیلئےناقابل شناخت ہیں۔

جب میں2001میں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھا تو میں نیشنل کمیشن برائےنینو ٹیکنالوجی کا قیام عمل میں لایا تھا اور ایک نامور سائنسدان ڈاکٹر این ایم بٹ کو اس کا سربراہ مقرر کر کے اس شعبے کا آغاز کیا تھا۔ بدقسمتی سے، بعد میں حکومت نے (اپنی سوچ کے مطابق) فیصلہ کیا کہ ہمیں اس ’’بیکار میدان‘‘ کی کوئی ضرورت نہیں، اور کمیشن کے تمام پروگرام روک کرکمیشن کا کام ہی بند کردیا گیا۔اس مقالے سے نینو ٹیکنالوجی کی اہمیت کا قارئین کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہوگا۔آنے والے وقتوں میں یہ مزید اہم ہو جائیگا لہٰذا ہمیں اس اہم میدان میں پیچھے نہیں رہناچاہئے۔

بشکریہ روزنامہ آج