106

شام خسروؔ

آج سترہ رجب المرجب ، چاند اپنی پیلاہٹ کے ساتھ کراچی کے آسمان پر نکلا ہے اور یہی چاند دلی کے آسمان پر بھی ضوفشاں ہے۔

کراچی کا اردو باغ، ادب اور صحافت کی دو روزہ کانفرنس کے اختتامی سیشن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سبزہ زار اور اس پر بچھی ہوئی قالینین بزرگوں کے لیے چشم براہ ہیں اور دلی کا اردو گھر بھی کچھ ایسا ہی منظر پیش کر رہا ہے۔

انجمن ترقی اردو ہند اور انجمن ترقی اردو پاکستان جڑواں ادارے ہیں۔ یہ ادارہ 1903 میں وجود میں آیا تھا اور1947 کی نیرنگی سیاست کا شکار ہوا، اس کے بھی دو حصے ہوئے۔

ایک حصہ ہندوستان میں رہ گیا اور ایک حصے کو لے کر مولوی عبدالحق کراچی آگئے۔اب 75 برس سے کراچی کا اردو باغ اپنی علمی اور ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہے اور دلی کا اردو گھر اپنی بہار دکھا رہا ہے۔

اردو صحافت کے دو سو برس مکمل ہونے پر انجمن اردو پاکستان کے زیراہتمام دو روزہ ادب و صحافت کانفرنس کا انعقاد ہوا جس کے اختتام پر شام امیر خسرو منائی گئی۔ اس کی صدارت احمد عبدالباری فرنگی محلی نے کی اور جس میں کلیدی خطبہ پروفیسر ڈاکٹر سحر گل نے پیش کیا۔ان کی شخصیت سحر انگیز ہے اور سندھی، سرائیکی، اردو، فارسی پر گرفت ہونے کے سبب وہ امیر خسرو کی علمی اور ادبی خدمات کا گہرائی اور گیرائی سے جائزہ لیتی ہیں۔

اپنے کلیدی خطبے میں انھوں نے اپنے علم اور اپنے انداز تخاطب سے محفل لوٹ لی اور اس کے بعد استاد عبداللہ نیازی اور وقاص نیازی قوال (دہلی گھرانہ) نے اپنی گائیکی کا سحر نصف شب تک طاری رکھا۔

یہ کانفرنس اور اس کا اہتمام صدر انجمن جناب واجد جواد، بطور معتمد اس حقیر فقیر مشیر مالیات اور علمی و ادبیات سید عابد رضوی اور ڈاکٹر یاسمین سلطانہ کی محنت شاقہ کے سبب ممکن ہوئی۔

اس محفل کے دو روزہ سیشنوں میں نامی گرامی افتخار عارف، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر افضال احمد سید، محترم غازی صلاح الدین، پروفیسر شاہدہ قاضی، ڈاکٹر تنویر انجم، ڈاکٹر فاطمہ حسن، محترم آصف زبیری، ڈاکٹر شاداب احسانی، ڈاکٹر صدف فاطمہ اور ڈاکٹر ذکیہ رانی کے علاوہ بھی کئی اہم شخصیات شریک تھیں۔

اس موقع پر مجھے محترم و مکرمی ظ۔ انصاری کی کتاب ’’ خسرو کا ذہنی سفر ‘‘ یاد آئی۔ یہ کتاب انجمن ترقی اردو ہند، اردو گھر نئی دہلی سے شایع ہوئی تھی۔ میرا بچپن خسروکی کہانیاں سنتے گزرا، ذرا بڑی ہوئی تو اندازہ ہوا کہ خسروکی تلوار نے جہاں ہزاروں کے سراُتارے وہیں ان کی شاعری، فاتح عالم ٹھہری۔

ظ۔انصاری لکھتے ہیں: ’’امیر خسرونے واپسی پر 9054 اشعار کی ایک بیش بہا مثنوی ’’نہ سپہر‘‘ لکھ کر پیش کر دی۔ معلوم نہیں اس شاہ جم جاہ سے کیا اور کتنا صلہ ملا، لیکن خسروکو دربار سخن سے جو صلہ ملا وہ بے مثال تھا۔ مؤرخین (مثلاً برنی اور فرشتہ) کے بیان کو جانچنے میں بھی اس مثنوی سے سند لی جاتی ہے۔

گشت ہر پردہ ز نقش مستقیم

چوں خیال شاعر و ذہن حکیم

صورتے بنمود بر ہر سو جمال

کانچناں صورت نہ بندد در خیال

یہ اشعار انھوں نے سپہر ہفتم میں جشن نوروز کے بیان میں لکھے ہیں جب شمال و جنوب کا حسن، دولت، زیورات، آرائش، کھیل تماشے، شعبدے اور جادو، تلوار کے ہنر اور سازوں (مثلاً نائے، چنگ، بربط، عود، رباب، دف اور جھانجھ) کے باج دہلی میں یکجا ہوگئے ہیں۔

بالکل یہی مصرعے خسرو کی اس مثنوی پر صادق آتے ہیں جس میں جوش بیان کے بجائے سلاست اور مبالغے کے بجائے بیان حقیقت اور عام استعاروں کی جگہ اشیاء اور اسماء کی تفصیل بلکہ تصویرکھینچی ہوئی ہے۔

ہندوستان کی طرف سے خم ٹھونک کر وہ پہلے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتے رہے لیکن یہاں (سپہر سوئم کے) تقریباً چار سو اشعار میں دہلی، اہل دہلی اور ہندوستان کی حمایت میں علمی دلیلیں قائم کی ہیں۔ جتنی سنجیدگی ہمدردی اورکرید سے البیرونی (متوفی 1048) نے ہندوستانی سماج اور اس کے علوم اور رسوم کی تلاش کی اور جن نتیجوں پر وہ پہنچا، تین سو برس بعد امیر خسرو بھی اسی راہ سے انھی نتیجوں پر پہنچے۔ فرق یہ کہ وہاں علمی تلاش رہنما تھی اور یہاں شاعرانہ بصیرت۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جن معنوں میں ابوریحان محمد بن احمد الخوارزمی (البیرونی) آخری کڑی تھا۔ عربوں کی تلاش ہند کے تین صدی طویل سلسلے کی، انھی معنوں میں امیر خسروپہلی کڑی ہیں۔ ہندوستان کے نئے سیاسی حالات میں ہمدردانہ نقطہ نظرکی، جس نے صوفیا اور فارسی اردو شعراء کی صفوں میں اپنے ترجمان پائے۔

اس مثنوی میں (جس کے بعض اشعار بعد کے اساتذہ کے ہاں بھیس بدل بدل کر آتے ہیں) خسرو نے نجوم، ہیئت، (فلکیات) لباس، تیر تلوار، مختلف زبانوں، گھوڑوں، کھیلوں، لوگوں، موسموں اور نسلوں کے بارے میں معلومات کا انبار لگادیا ہے۔ اتنی معلومات کہ ’’ہندوستانی معاشرہ، عہد وسطیٰ میں‘‘ کے مصنف کے لیے امیر خسروسب سے اہم مآخذ بن گئے ہیں۔

وہ ان قلعوں، شہروں، مندروں، فنکاروں اور ہنر مندوں کی ستائش کرتے ہیں جن پر بیداد ہوئی، مگر داد نہ ملی۔ وہ بادشاہ کی مدح کو تمہید بناکر اسے کھلے لفظوں میں نصیحت کرتے ہیں کہ

پنج بنا شرط جہانداری است

آید از وکش زخدا یاری است

پھر پانچوں شرطیں گنائی ہیں۔ (1) سلطنت کی پالیسی مضبوط اور انتظامی مشین سچی ہونی چاہیے۔ (2) اندر عزم ہو، باہر سکون۔ یعنی امتحان کے وقت ارادہ اٹل اور چہرہ پُروقار رہے۔ (3) دور اندیشی میں غفلت نہ ہونے پائے۔ (4) پرجا کو انصاف ملے کہ کسی کی فریاد بلند نہ ہو۔ (5) خاص و عام کی آسودگی یا فلاح پیش نظر رہے۔

پھر ایک ایک نکتے کو تفصیل وار تاریخی قصے اور مثالیں دے کر بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ پانچ چھ صدی پہلے دہلی کے راجہ اننگ پال کی ڈیوڑھی پر پتھر کے دوشیر بنے ہوئے تھے جو قوت انصاف کی علامت تھے اور ان کے پہلو میں ایک گھنٹہ لٹکا ہوا تھا جسے فریادی آکر ہلاتے اور انصاف طلب کرتے تھے۔

وہ اس مثنوی میں عیش پسند اور شہوت پرست بادشاہ کو (جسے روزانہ سفر و حضر میں نوجوان مرد و زن پر مردانگی خرچ کرنے اور بدمست ہوجانے کی عادت تھی) صاف صاف جتاتے ہیں کہ

تاجورا نے کہ تنعم کنند

حزم خود از عیش و طرب کم کنند

اوروں کے علاوہ، خاص اس مثنوی کو پڑھ کر وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ کیوں پہلے دن سے مغل شہزادوں کو خسروکی مثنویاں لفظ بلفظ پڑھائی جاتی تھیں اور خوش خطی کی مشق میں وہ انھیں نقل کیا کرتے تھے۔ نظام الدین اولیاء کے مرید خسرونے شاعری کے تقریباً آخری کارنامے سے وہ کام لیا ہے جو ہمیشہ سے اس کا آخری اور پیمبرانہ فریضہ رہا ہے۔

مگر نوعمر، نازپروردہ بادشاہ نہیں چیتا۔ پہلا سال اس نے شاہی کے ولولے اور اپنا میدان صاف کرنے میں گزارا۔ دوسرا سال طمطراق، سفاکی اور فوج کشی میں، تیسرا اور چوتھا ’’کھال کے اندر دشمن‘‘ پالنے اور اس کی خاطر، بے حیائی کی حد تک اپنے دوستوں کو بے دخل اور ذلیل کرنے میں۔

اگر شاہی نقار خانوں میں دانشور طوطی کی پکار سنائی دے جاتی تو سلطنت پشت در پشت چلا کرتی، دست بدست کیوں بدلتی۔ ‘‘

ظ۔انصاری نے بادشاہ کے ان بھائیوں کی مظلومیت کا نقشہ بھی کھینچا ہے جو بارہ برس کا ہے اور ممکنہ طور پر تخت کا دعویدار ہوسکتا ہے تو اس کا سر کس طرح اڑایا گیا حالانکہ وہ قرآن کے کتنے پارے حفظ کرچکا تھا۔

بشکریہ ایکسپرس