آج سے تقریباً اڑتیس سال قبل 1984کےبجٹ سیشن سے بطور وفاقی وزیر خزانہ غلام اسحاق خان نے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ نئے مالی سال کی ابتداء سے یعنی یکم جولائی 1985سے پاکستان کے سرکاری اور نجی تمام بنکوں اور مالیاتی اداروں میں سودی لین دین پر مکمل پابندی عائد ہوگی
1984کے بجٹ سیشن میں سودی بنکاری پر پابندی کا اعلان کرنے والے غلام اسحاق خان کس قدر طاقتور تھے اس کا اندازہ آپ اس بات لگائیں کہ 1955میں مغربی پاکستان کے سیکرٹری آبپاشی کے طورپرنمودار ہونے والے غلام اسحاق 1961میں واپڈا کے سربراہ بنے 1965میں انکی قسمت نے انگڑائی لی تو وہ وفاقی سیکرٹری خزانہ بن گئے اور سیکرٹری خزانہ ہوتے ہوئے جنرل یحیٰی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے مابین انتقال اقتدار کے معاہدہ پر تیسرے شخص وہ وفاقی سیکرٹری خزانہ اسحاق خان ہی تھے جو معاہدہ پر دستخط کروا رہے تھے
پھر 1975تک وہ گورنر سٹیٹ بنک رہے
پھر سیکرٹری دفاع اور جوہری پروگرام کے نگران بنے
بعدازاں جب جنرل ضیا الحق نے بھٹو حکومت کو چلتا کیا تو قسمت کے اس دھنی پر قسمت مزید مہربان ہوئی اور موصوف پہلے مشیر خزانہ پھر وزیر خزانہ بن گئے اسی کے دہائی کے وسط میں جب جمہوری فورسز نے جنرل ضیا کو جمہوریت کی بحالی پر مجبور کیا جسکے نتیجے میں غیر جماعتی الیکشن کا لولی پاپ جنرل ضیا الحق نے فوجی بیرک میں تیار کیا اور جمہوری نظم کی بحالی کی ابتدا کرتے ہوئے سینٹ کو فعال کرتے ہوئے غلام اسحاق خان کو چیئرمین سینیٹ مقرر کردیا
بعدازاں 17اگست 1988کو جب طیارہ حادثے میں جنرل ضیاء الحق چل بسے تو بطور قائمقام صدر غلام اسحاق خان نے جنرل ضیاء الحق کی طیارہ حادثے میں موت کی تصدیق کی
اور موصوف اسی پوزیشن پر براجمان رہے تین ماہ بعد وہی الیکشن جنکو جنرل ضیا الحق غیر جماعتی کرنا چاہتے تھے وہ جماعتی بنیادوں پر ہوئے اور پیپلز پارٹی اکثریتی پارٹی بن کر ابھری ہے لیکن PPPنے مشروط اقتدار وصول کیا جس شرط کی بنیاد پر غلام اسحاق خان کو دسمبر 1988میں ساتویں صدر مملکت نوابزادہ نصر اللہ خان کے مقابلے میں منتخب کیا گیا یاد رہے کہ غلام اسحاق خان آئی جے آئی اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ صدارتی امیدوار تھے
موصوف آٹھویں ترمیم کے شق اٹھاون ٹو بی کے تحت انتہائی بااختیار صدر مملکت تھے جنکو پارلیمان سمیت وزیر اعظم کی برطرفی اور اعلی عدلیہ کے ججز اور فوجی سربراہ کے تقرر اور برطرفی کا اختیار بھی حاصل تھا چنانچہ صدر غلام اسحاق خان نے 1990میں بینظیر حکومت اور 1993میں نواز شریف حکومت کو 58ٹوبی کے تحت ہی گھر بھیجا نواز شریف حکومت کو بعدازاں سپریم کورٹ نے ریلیف دیا جو ڈیڈ لاک کی شکل اختیار کرگیا جس پر اسوقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مداخلت پر غلام اسحاق خان اور نواز حکومت دونوں کو گھر جانا پڑا
اس پس منظر کا مقصد یہ ہے کہ کس قدر طاقتور بیوروکریٹ جو سیکرٹری خزانہ،گورنرسٹیٹ بنک ،چئیرمین سینٹ اور صدر مملکت رہنے والی شخصیت اپنے سودی بنکاری پر پابندی کے اعلان پر عملدرآمد نہیں کروا سکا باوجود اسکے کہ وہ اس اعلان کے بعد پاور فل صدر پاکستان بھی رہے
تو اب 2022میں شہباز حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اعلان کو مذہبی حلقے خوش آئند تو ضرور قرار دیں لیکن آنکھیں بند کرکے نہیں آنکھیں کھول کر اور حقائق جان کر ۔۔۔
چند سوالات۔۔۔۔
۔۔۔1.... پاکستان کاسٹیٹ بینک عالمی مالیاتی اداروں کے پاس بطور گروی موجود ہے یہ وہ عالمی مالیاتی ادارے ہیں جو سودی نظام کے پروموٹر ہیں وہ سٹیٹ بنک کو پاکستان کے مالیاتی اداروں سے سود کے خاتمے کےلئے پالیسی وضع کرنے اور اس پر عملدرآمد کی کھلی چھوٹ دیں گے۔۔۔۔؟
۔۔۔2..... پاکستان میں موجود بنکوں کو جاری کردہ پالیسی پر عملدرآمد پر مانیٹرنگ کا مجاز سٹیٹ بنک ہے سٹیٹ بنک میں ایسی بااختیار اور اہل کمیٹی کب تلک دستیاب ہوپائے گی جو اسلامی بینکاری کیطرف اقدامات اٹھانے کے لئے بنکوں کو ہوم ورک دے گئی اور اس پر عملدرآمد کی مانیٹرنگ کرے گی ۔۔۔؟
۔۔۔۔3۔۔۔۔ شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل میں نجی بنک بھی ہیں کیا سٹیٹ بنک انکو شریعت کورٹ کے فیصلے کے مطابق پالیسی جاری کرکے پابند نہیں کرسکتا ۔۔۔۔؟
آئے روز سٹیٹ بنک نئی پالیسیاں جاری کرتا ہے اور اس پر عملدرآمد کرواتا ہے لیکن سود کے حوالہ سے پالیسی کیوں جاری نہیں کر رہا ۔۔؟
۔۔۔4۔۔۔اگر وفاقی حکومت سودی بنکاری کے خاتمے پر یکسو ہے تو ابھی تک اس کے لئے کیا طریقہ کار مرتب کیا ۔۔۔؟
۔۔۔۔5۔۔۔۔مذہبی جماعتوں اور دینی شخصیات سے سوال ہے کہ شریعت کورٹ کے فیصلے کے بعد سود کی لعنت کے خاتمے کے لئے کس قدر متحرک کردار ادا کیا۔۔۔۔؟ رات کی تنہائی میں اللہ کے حضور کھڑے ہوکر اپنے آپ سے سوال کیا جائے کہ ہم نے کس قدر اپنی ذمہ داری کو پورا کیا ہے ۔۔۔؟
۔۔۔۔۔6۔۔۔۔۔مذہبی جماعتوں ،مذہبی شخصیات اور اسلامی اداروں نے سودی بنکوں کے خلاف احتجاجا انکا اپنی اور عوامی سطح پر بائیکاٹ کا عملاً اعلان کیا ۔۔۔۔۔؟اگر ہر مسجد سے سودی بنکاری کے بائیکاٹ کے لئے آواز بلند ہو اور ہر مسجد سے دس افراد بھی اگر اپنا اکاؤنٹ سودی بنکوں سے بند کریں تو یہ تعداد لاکھوں میں بن جائے گی جس سے سودی بنک ہل کررہ جائیں گے
اور الحمدللہ مولنا فضل الرحمان ،مفتی تقی عثمانی ،پروفیسر سراج الحق ،مولنا طارق جمیل ،مفتی منیب الرحمان،مفتی محمد زبیر ،مفتی طارق مسعود مولنا ثاقب رضا مصطفائی ،پروفیسر ساجد میر ،مولنا حنیف جالندھری ،مولنا پیر مختار الدین ،مولنا احمد لدھیانوی ،مولنا پیر عبد الستار ،مولنا اورنگزیب فاروقی ،مولنا زاہد الراشدی ،مولنا اللہ وسایا ،مولنا سعد رضوی ،پیر سلطان فیاض الحسن (حق باہو والے )،سمیت ایسی بہت ساری مذہبی شخصیات ہیں جنکی ایک ٹویٹ اور ایک ویڈیو پیغام پر ہزاروں لوگ سودی بنکوں سے اپنے اکاؤنٹ بند کروا کر اپنے کھاتے ختم کروا سکتے ہیں جسکے نتیجے میں سودی بنکاری کے علمبردار اور نگہبان بنک چند مہینوں تک بھی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکیں گے
اب مذکورہ اور غیر مذکورہ مذہبی شخصیات سے سوال ہے کہ آپ سودی بنکاری کی چہولیں فالورز سے بائیکاٹ کرکے ہلانے پر قادر ہونے کے باوجود یہ اقدام نہ اٹھاکر عنداللہ مجرم ہیں یا نہیں۔۔۔۔؟کیا یہ سودی بنکاری کی بلواسطہ اعانت ہے یا نہیں۔۔۔؟
حکم نہیں سوال ہے احساس ذمہ داری کے لئے
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلامی نظام کے لئے جدوجھد کرنے کی کی توفیق عطا فرمائے اور کس درجہ میں بھی سودی بنکاری کے معاون بننے سے محفوظ فرمائے آمین یارب العالمین