91

معرکہ آئین نو مقابل طرز کہن

قارئین کرام!پاکستان موجود گھمبیر بحرانی کیفیت کے تناظر میں ناچیز کے اٹھائے سوالات و گزارشات پر آپ کی سنجیدہ توجہ مطلوب ہے :کیا بدترین شکل میں موجود منقسم قوم اور جملہ ریاستی ادارے سمجھ پائیں گے کہ زمانے کے انداز بدلےگئے ؟کیا وہ اب تک قائل ہوئے کہ ہماری اسی منتشر و محروم و مقہور قوم کا بڑا اکثریتی حصہ قیامت کی چال چل گیا ،اس کمال و جمال سے کہ آئین نو طرز کہن سے ٹکرا گیا کہ کوئی پر آشوب انقلاب برپا نہیں ہوا ۔اسٹیٹس کو،ماورائے آئین و قانون اصلی طاقت اور انتظامی اختیارات سے لیس مقتدر، انسداد احتساب کی ٹیلر میڈ قانون سازی کی مرتکب پارلیمان اور مداخلت و ہارس ٹریڈنگ کے زور پر آئین کی پتلی گلی سے بنی متنازعہ حکومت (جسے ایوان کی سب سے بڑی اکثریتی جماعت ماننے سے انکاری )کو بھی خبر ہوئی نہ اندازہ کہ سیاسی قیامت ٹوٹ پڑی۔وہ خبردار ہیں ؟اور انہیں بھولا تو نہیں کہ عوام مہنگائی کے سونامی میں ادھ موئے ہوگئے اور ’’امپورٹڈ سرکار‘‘ راتوں رات ملک گیر عوامی غیظ وغضب کے حامل ردعمل، جو سرحدوں سے باہر دنیا بھر میں آباد پاکستان میں بھی پہنچ گیا،تو مسلط حکومت کی سرخیل ن لیگ کے لندنی دھڑےنے بوکھلا کر یہ بیانیہ فوراً نہیں گھڑا تھا کہ ’’ہم نہیں چاہتے تھے ،یہ حکومت تو ہم پر اصلی طاقت نے تھوپی ہے‘‘ ۔حکومتی دھڑا اور پی ڈی ایم کی باقی جماعتیں حصہ بقدر جثہ کی بنیاد پر وزارتوں کی بندربانٹ میں لگ گئیں پھرسب نے ساری توجہ گردنوں میں پڑے کرپشن مقدمات کے طوق اتارنے، نیب کو مفلوج اور انسداد احتساب کی من مانی قانون سازی پر مرتکز کر دی اور کر ڈالی۔کیا قوم اور آنے والی منتخب حکومت کو یہ ہضم ہو جائے گی اور ہونی چاہئے ؟عوامی تیورتو بتا رہے ہیں ، نہیں بالکل نہیں جبکہ حکومت ختم ہونے کے بعد خود کو بڑے چھوٹے ضمنی انتخابات سے مسلسل واحد قومی وفاقی پارلیمانی قوت ثابت کرنے والی تحریک انصاف تو اس کے خلاف سپریم کورٹ میں چلی گئی۔اقتدار میں آکر اس ٹیلر میڈ قانون سازی کو ریورس کرے ہی کرےلیکن حکومت کی دیدہ دلیری کا عالم بھی تو دیکھیں کہ وفاقی وزیر ترقیات و منصوبہ بندی دھڑلے سے میڈیا ٹاک میں قوم کو کرپشن اور ترقی ساتھ ساتھ چلنے کا یقین دلاتے ہیں، جیسے ’’دھماچوکڑی عشرہ جمہوریت‘‘ شروع ہونے پر پی پی حکومت کے ایک وزیر مملکت نے ٹی وی انٹرویو میں ببانگ دہل’’ کرپشن ہمارا بھی حق ہے‘‘ کا شرمناک بیانیہ پیش کیا اور اینکر کے چونک کرپوچھنے پراپنےکہےکو دہراتے ہوئے تصدیق کی کہ ہاں میں نے یہ ہی کہا ہے ۔اس پس منظرنے حکومت اور پی ٹی آئی کی سیاسی ابلاغ کی شدت سے لڑی جانے والی جنگ کو 180درجے دوری پر پہنچا دیا ہے، اطرافی کھلی کھڑکیوں اور بند کمروں میں تادم لاحاصل گفت و شنید کا اب تک کا خلاصہ ’’اقتدار کی مدت پوری کرنا ‘‘ ن لیگ کا اور ’’جلد سے جلد الیکشن شیڈول کا اعلان اور کیئر ٹیکر حکومت کا قیام پی ٹی آئی کے اپنے اپنے پیش کئے واحد حل ہیں پھر یہ دوری اور ڈیڈلاک ایک بڑے طاقتور منصب کے تقرر کے پیچیدہ سیاسی بنائے گئے کھیل سے جڑ گئی ہے اور اس کی فیصلہ سازی کا مرکز اسلام آباد ہی نہیں لندن کو بھی اس کا حتمی شریک بنا دیا گیا۔اس صورتحال کے پس منظر میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ ، ایف آئی آر کے اندراج اور خان کی جان مسلسل خطرے میں اور اسے مذہب کارڈ سے جوڑنا، پھر پاکستانی نامور صحافی ارشد شریف کی شہادت اور انکے پاسپورٹ کےحوالے سے خبری فالو اپ نے تعمیر پاکستان ،بقائے جمہوریت اور عوامی جذبات و ضروریات کی موثر معاون و ترجمان قومی صحافت کو زخمی اور تقسیم کر دیا ۔گویا بحران کثیر الجہت ہے، خان صاحب جان ہتھیلی پر رکھ کر پھر اختراعی لانگ مارچ کی قیادت کیلئے پرعزم ہیں ۔یہاں بڑا سوال یہ بن گیا ہے کہ اب پھر عمران خان کی سیکورٹی کا انحصار وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کے کنٹرول سے باہر زیر بحث ن لیگی برینڈ پنجاب پولیس پر ہی کرنا ہے ؟ اور تحریک انصاف کےسیکورٹی دستوں پر جو قاتلانہ حملے پر نہ جانے کہاں تھے ؟یا (اللہ نہ کرے) ملکی داخلی سلامتی کے تمام ذمے داران، دشمنان ،آئین نو اور اس کے علمبردار کو سیاسی منظر سے ہٹانے کے عوامی ردعمل میں اندرونی سلامتی کو درپیش شدید خطرات کے یقینی نتائج کا کوئی اندازہ کرسکتے ہیں ؟اس کی سکت ہونا ناگزیر نہیں ؟ہے تو صوبائی حدود اور وزارت داخلہ کے مہلک رویے کی موشگافی اورعلانیہ ارادوں کے مکمل واضح اور بے اثر بلکہ پر خطر ثابت ہونے کے بعد سرحدوں کے ساتھ ساتھ موجود صورت میں داخلی سلامتی کے آئینی ذمے داران بھی قومی اتحاد و یکجہتی کی جیتی جاگتی اور موثر علامت بن جانے والی وفاقی سیاسی قیادت کے تحفظ کے ذمے دار نہیں ؟یا وہ ریڈزون کی حفاظت کے لئے مامور ہے ؟جبکہ لانگ مارچ سے ایوان ہائے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں خصوصاً خان صاحب کے وہاں نہ جانے کا اعلان کرنے کے بعد ۔یہ عجب بات ہے کہ تیرہ جماعتی حکومت کی تین پارٹیوں نے عمران خان کے دور حکومت میں تین لانگ مارچ کئے اور خان کا جاری مارچ بھی قاتلانہ حملے تک مکمل پرامن تھا، لیکن پروپیگنڈے سے ایک ہوا کھڑا کرکے ’’سیاست کی گئی ‘‘۔

شاباش بابر الیون

ٹی 20 کرکٹ کے ورلڈ کپ فائنل میں پاکستان اگرچہ ہار گیا لیکن فاتح انگلش ٹیم کے مقابل تقریباً یکساں بہتر کھیل کھیلا۔بڑی بات یہ ہے کہ اس فائنل میں پہنچ کر بابر الیون نے دہشت گردی کی جنگ کی آڑ میں پاکستانی کرکٹ کو بھی سبوتاژ کرنے کی دشمن کی جزواً مکارانہ ’’کامیابیوں‘‘ کا مکمل خاتمہ کرکے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی فل اسکیل پر بحالی کا کارنامہ انجام دیا۔بیٹنگ پر بھی تنقید نہیں بنتی خود انگلش ٹیم نے بھی 19اوور میں پاکستان کے قریب قریب ہی اسکور بنائے انگلش ٹیم ایک اوور میں جاری رفتار میں تھوڑی تیزی لاکر بھی زیادہ سے زیادہ دس بارہ رن ہی اور بناسکتی تھی ۔شاہین آفریدی میدان میں رہتے تو یہ بھی آسان نہ ہوتا بلکہ پاکستان جیت بھی سکتا تھا ۔تجزیوں کا مجموعی حاصل بھی یہ ہے کہ پاکستان نے ابتدائی مایوس کن آغاز کے بعد زبردست کم بیک کیا۔قوم مطمئن ہے اور مخالف بھی ،پاکستان کی بہترین کارکردگی خصوصاً امتیازی بائولنگ کی دھاک کا اعتراف کر رہے ہیں ۔بابر اور ان کی ٹیم کو پاکستان کو فائنل تک لے جانے اور کرکٹ کی مکمل بحالی پر مبارک۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم