64

خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی!

یوں کہنے کو تو وطن ِ عزیز اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے لیکن عملاً اس کی حیثیت محض ایک لیبل کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ یہاں وہ سب کچھ ہوتا ہے جس کا اسلام سے دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے معاشرے کو لے لیجیے۔

اِس میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جس سے اسلام منع کرتا ہے یہاں سود کا کاروبار ہوتا ہے، یہاں رشوت ستانی عام ہے، یہاں جسم فروشی، قلم فروشی، ناجائز منافع خوری، شراب نوشی، حق تلفی، ذخیرہ اندوزی، جوا ،سٹہ، چوری ڈکیتی، حرام خوری سمیت بہت کچھ ہوتا ہے۔

عدالتیں ہیں لیکن انصاف مفقود ہے، یہاں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا قانون چلتا ہے۔ یہاں کمزور کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔یہاں ملاوٹ دل کھول کر ہوتی ہے حتیٰ کہ غذا اور دواؤں میں ملاوٹ دھڑلے سے ہوتی ہے اور پکڑنے والا کوئی نہیں۔یہاں جرائم کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں۔جھوٹی قسمیں کھائی جاتی ہیں اور جھوٹے حلف اٹھائے جاتے ہیں۔

سیاست وطن عزیز کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور عالم یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ سے لے کر حکمرانی ہی نہیں بلکہ دفتروں، عدالتوں، تعلیمی اداروں، گھروں، رشتہ داروں اور مساجد تک میں سیاست کا چلن عام ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

گری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

اللہ تعالی نے اس ملک خداداد کو بیشمار نعمتوں سے نوازا ہے اور اس کی دھرتی سونا اگلتی ہے لیکن اِس کے باوجود یہاں کا مزدور، یہاں کا محنت کش اور یہاں کا ہاری اور عام آدمی غربت کا شکار ہے اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ آخر اِس کی وجہ کیا ہے؟یہاں جمہوریت کا چرچا ہے لیکن نوٹوں سے ووٹ خریدے جاتے ہیں اور جھوٹے نعروں سے عوام کو فریب پر فریب دیا جاتا ہے۔سنسکرت کی ایک کہاوت ہے

’’ یتھا تتھا راجا‘‘جس کے معنی یہ ہیں کہ جیسا راجہ ویسی رعیت۔

یہ وطن اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا۔ یہاں اسلام آباد تو موجود ہے لیکن اسلام کا نام و نشان تک نہیں ہے۔یہاں تبدیلی کے نعرے تو لگائے جاتے ہیں لیکن نظام جوں کا توں رہتا ہے بلکہ بد سے بدتر ہوا جاتا ہے۔جمہوریت کی تعریف تو یہ ہے کہ ’’حکومت عوام کے ذریعہ اور عوام کے لیے‘‘لیکن نہ تو انتخاب لڑنے والوں میں سے کوئی امیدوار عوام میں سے ہوتا ہے اور نہ ہی عوام کا کوئی زور چلتا ہے اور نہ ہی کوئی عوام کو جوابدہ ہوتا ہے۔

اصل صورتحال یہ ہے کہ پورا نظام میوزیکل چیئرز کا کھیل ہے جس میں مختلف مقتدر لوگ ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔گستاخی معاف یہ پتلی تماشہ ہے جس میں سارا کھیل ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ ہوتا ہے۔مدت دراز سے یہی تماشہ ہورہا ہے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے یہ تماشہ کب تک جاری رہے گا۔

سچی اور کڑوی بات یہ ہے کہ جب تک صحیح معنوں میں نظامِ اسلام نافذ نہیں ہوگا یہ تماشہ یونہی چلتا رہے گا۔نظامِ اسلام کی بنیاد خدا پرستی، خوفِ خدا، عدل و انصاف اور مساوات پر مبنی ہے جس کی عملی مثال خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ حکمرانی میں ملتی ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ وطن ِ عزیز میں ایک قبضہ مافیہ موجود ہے جس کے چہرے بدلتے رہتے ہیں اور جس نے ملک کے وسائل اور خزانہ پر قبضہ کر رکھا ہے۔

یہی وہ طبقہ ہے جس کی وجہ سے عدم مساوات کا دور دورہ ہے اور یہ عدم مساوات ہی فتنہ و فساد اور خرابی کی اصل جڑ ہے۔یہ قبضہ مافیہ وطن عزیز کی کل آبادی کے ایک فیصد افراد پر مشتمل ہے اور 99 فیصد وسائل اور مواقع پر حاوی ہے اِس میں زمیندار اور وڈیرے، ساہوکار، صنعتکار، سول اور غیر سول مقتدر لوگ شامل ہیں جن کے ہاتھوں میں عوام کی قسمت کی باگ ڈور ہے۔

سچ پوچھیے تو عوام بیچارے تو محض اِن کے رحم و کرم پر ہیں جن کے کاندھوں پر رکھ کر بندوق چلائی جاتی ہے۔

اس نظام میں عوام کی حالت بھیڑوں کی ہے۔ملک کی 99 فیصد آبادی کو غربت کے جال نے پھنسایا ہوا ہے اور اس جال میں پھنسے ہوئے لوگوں کو تن ڈھانپنے کے لیے کپڑوں، سر چھپانے کے لیے چھت اور پیٹ کی دوزخ کو بھرنے کے لیے روٹیوں تک کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور یہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔جہاں تک مڈل کلاس کا تعلق ہے تو اُس کی حالت زار بھی کچھ کم دگرگوں نہیں ہے جسے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔تنخواہ دار طبقہ بالخصوص سرکاری ملازمین کا جینا بھی محال ہے۔

یہ بیچارے بھی اِس قابل نہیں کہ اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں تعلیم دلا سکیں۔یہی وجہ ہے کہ اب گدڑی میں لعل پیدا نہیں ہورہے۔ آگے بڑھنے کے تمام مواقع وڈیروں اور رؤسا، سول اور غیر سول بیوروکریسی کے قبضہ میں ہے جن کے بچے اعلیٰ سے اعلیٰ ملکی اور غیرملکی بہترین اداروں میں تعلیم و ہنرمندی حاصل کر کے حکمرانی کی مسندوں پر بیٹھنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔اب یہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کہ لوئر یا اَپر مڈل کلاس تک کا کوئی ہونہار کسی اعلیٰ عہدہ تک رسائی حاصل کر سکے۔

چناچہ دھوبی کا بیٹا دھوبی، مزدور کا بیٹا مزدور، ڈرائیور کا بیٹا ڈرائیور اور کاریگر کا بیٹا کاریگر، جمعدار کا بیٹا جمعدار، نائب قاصد کا بیٹا نائب قاصد ہی بن سکتا ہے۔اِس سال 40 لاکھ پاکستانی بچے اٹھارہ سال کے ہوجائیں گے۔اِن میں سے باون فیصد انٹرمیڈیٹ سسٹم سے پاس ہونگے اور تقریباً 30000 او اور اے لیول سے پاس ہونگے۔ 30لاکھ سے اوپر یعنی 75 فیصد بچے 12سال کی اسکول کی پڑھائی مکمل نہیں کر سکیں گے۔

ہمارے ملک میں آدھے سے زیادہ بچے اسکول کی تعلیم سے محروم ہیں۔یہ 30000بچے جو اے لیول سے تعلق رکھتے ہیں وہ پاکستان اور دنیا کی مشہور جامعات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں گے اور اِن میں سے بہت سے لیڈر بن کر ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔

پاکستان میں کل 4 لاکھ اسکول ہیں۔ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والے خوش نصیبوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو مراعات یافتہ طبقہ سے تعلق رکھنے کی بنا پر آیندہ چند سالوں میں اعلیٰ عہدیدار اور وفاقی کابینہ کے رکن بنیں گے۔بڑے اسکول سے فارغ التحصیل ہونے والے مقدر کے سکندر ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہیں اور بڑے بڑے بزنس مین بھی اِسی ادارے سے پڑھ کر نکلتے ہیں۔

عالمی شہرت کے حامل ماہر معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق نے بالکل بجا کہا تھا کہ پاکستان میں 22خاندانوں کی اولاد ملک کے چنیدہ صنعتی اداروں اور۴/۵ بینکاری اثاثوں کی مالک ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِن بائیس خاندانوں کی تعداد مزید بڑھ چکی ہے جس میں سیاستدان اور بعض دیگر اہم اداروں کے افراد بھی شامل ہیں۔

ارتکازِ دولت صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس میں دیگر میں ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹر محبوب الحق کے پانچ عشروں بعد بھی معاملات جوں کے توں ہیں اور اِن کے سدھرنے کے کوئی آثار بھی نظر نہیں آتے۔بقول شاعر:

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

بشکریہ ایکسپرس